مشال ارشد سی ایم انڈر گراؤنڈ نیوز
بھارتی حکومت نے متنازع پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن بل پارلیمان سے واپس لے لیا ہے۔
اس بل پر ٹیکنالوجی کمپنیوں اور سول رائٹس گروپس کی جانب سے شدید تنقید کی جارہی تھی کیونکہ اس کے تحت حکومت کو حساس تفصیلات تک رسائی حاصل ہوجاتی۔
بھارتی حکومت کا یہ اقدام سرپرائز بن کر سامنے آیا کیونکہ یہ بل 2019 میں متعارف کرایا گیا تھا اور حال ہی میں عندیہ دیا گیا تھا کہ اسے جلد منظور کیا جاسکتا ہے۔
بھارت کے وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی راجیو چندر شیکھر نے بتایا کہ پارلیمان کی جوائنٹ کمیٹی نے اس کے لیے متعدد ترامیم اور سفارشات پیش کی تھیں جن کے پیش نظر بل کو واپس لیا جارہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے منظم قانونی فریم ورک پر کام کیا جارہا ہے اور جلد ایک نیا بل پیش کیا جائے گا۔
پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن بل میں بھارتی شہریوں کو ان کے ڈیٹا کے حوالے سے حقوق دینے کی بات کی گئی تھی مگر ناقدین کا کہنا تھا کہ اس سے بھارتی حکومت کو شہریوں کے ذاتی ڈیٹا تک رسائی حاصل ہوجائے گی۔
ناقدین کا کہنا تھا کہ بل میں حکومتی اداروں کو استثنیٰ دیا گیا اور بڑے اداروں کے مفادات کو ترجیح دی گئی جبکہ پرائیویسی کے بنیادی حقوق کا مناسب خیال نہیں رکھا گیا۔
میٹا، گوگل اور ایمازون سمیت مختلف کمپنیوں کی جانب سے بل پر تحفظات ظاہر کیے گئے تھے۔