(مصبا ح لطیف اے ای انڈرگرائونڈ نیوز)
فرانس میں منعقد ہونے والے ’سمٹ فار اے نیو گلوبل پیکٹ‘ میں تین سو سے زائد ممالک کے سربراہان، عالمی ادارے اور سول سوسائٹی کے نمائندے پہنچ رہے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف بھی وہاں پاکستان کی نمائندگی کررہے ہیں لیکن اس سمٹ میں کیا ہونے جارہا ہے؟
رواں ماہ 22 اور 23 تاریخ کو بین الاقوامی رہنما درپیش چیلنجز، کلائمنٹ چینج اور صحت عامہ جیسے مسائل سے نبرآزمائی کے معاملے پر فرانس میں نئی گلوبل پیکٹ سمٹ پر جمع ہو رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ یہ تمام مسائل عالمی نظام انسانیت کے بقاء کے لئے خطرہ ہیں اسلیے مالیاتی اداروں کو قرض دیتے ہوئے یہ حقیقت خاطر میں رکھنی چاہیے۔
لیکن دنیا کا مالیاتی نظام ہے کیا۔ اس نظام کی بنیاد دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا نے برٹن ووڈز معاہدے کی صورت میں رکھی۔ سونے کی قیمت ڈالر میں مقرر کر کے ادائیگی کا نظام بنایا۔ نظام چلنے لگا تو سونا رکھ کر نوٹ چھاپنے کی شرط ختم کرنے کے بعد پچاس سالوں میں کئی بحران دیکھے۔
یونیورسٹی آف لندن کی پروفیسر ماریانہ مازوکاٹو کہتی ہیں کہ یہ نظام بہت اچھی کوشش تھی لیکن اب یہ مزید نہیں چلایا جاسکتا، بارباڈوس کی وزیراعظم اور ورلڈ بینک کی گورنر میاموٹلی نے امیر اور کم امیر ملکوں کے درمیان نئے اتفاق کی تجویز دی ہے۔
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل نے نیا روڈ میپ وضع کرنے کے لئے قوموں کے تعاون کی سمٹ بلائی ہے جہاں دنیا کی تین سو سے زائد اہم ترین شخصیات جمع ہوں گی۔ پاکستان کی نمائندگی وزیراعظم شہباز شریف کریں گے۔
سمٹ پر پچاس سے زائد مختلف نوعیت کی تقاریب ہوں گی۔ چھ راؤنڈ ٹیبلز ہوں گے، ایک جن میں ایک سیشن Debt and SDR-channelling: where do we stand and how to go بھی شامل ہے۔
میاموٹلی چاہتی ہے کہ قرض کے کاروبار کو نئی شکل دی جائے جبکہ ایک کہنے والے کا کہنا ہے کہ اصل مسئلہ تو قرض ہے۔
دنیا کے تین لاکھ پانچ ہزار ارب ڈالر قرض پر پانچ فیصد شرح سے سالانہ سود 15250 ارب روپے بنتا ہے۔ عالمی سالانہ پیداوار کا یہ تقریبا 20 فیصد ہے۔ ترقی پذیر ملکوں کا سود تقریبا آدھا بجٹ ہوگیا ہے۔
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل سمجھتے ہیں کہ 2030 کے مقاصد حاصل کرنے ہیں تو عالمی مالیاتی نظام درست کرنا ہوگا۔ شمولیت سے ترقی کرنے کیلئے مارکیٹ فکس کرنے والا نہیں مارکیٹ بنانے والا نظام دینا ہوگا جبکہ پروفیسر مازوکاٹو بھی شراکت کے نظام کا پرچار کر رہی ہیں اوراعداد کنگھالتی دو پاکستانیوں کی کتاب ہاؤس آف ڈیٹ کا بھِی یہی نچوڑ ہے۔
قائد اعظم نے اپنی تقریر میں دنیا کو عدل کا مساوات کا شمولیت کا نظام دینے کا وعدہ کیا ہے، علامہ اقبال کے شعر کا مصرع ’خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی‘ رہنمائی کررہا ہے، حسن اتفاق ہے کہ حج کے دن، صادق اور امین نبی نے انہیں دنوں میں اپنے چچا عباس کا قرض معاف کرکے سود کا خاتمہ کیا تھا۔
اب دیکھتے ہیں کہ فرانس سمٹ میں عالمی رہنما اس حکمت تک پہنچنے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں۔