(مصباح لطیف اے ای انڈر گراؤنڈ نیوز)
نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کو بہت مشورے دئیے جا رہے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ جسٹس فائز کو سب سے پہلے سپریم کورٹ کی صفائی کرنی چاہئے۔ چند ایک ججوں کو نکال باہر کرنا چاہئے جب کہ کچھ کو واپس ہائی کورٹس بھجوا دیں۔
کچھ کہتے ہیں کہ سب سے پہلے چیف جسٹس کو فیض آباد دھرنا کیس اُٹھانا چاہئے اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض کے ساتھ ساتھ ایک حاضر سروس لیفٹنٹ جنرل کو بھی کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہئے۔
کچھ یہ بھی توقع لگائے بیٹھے ہیں کہ جسٹس فائز تحریک انصاف کی حکومت کے دوران اپنے خلاف بنائے ریفرنس کے پیچھے تمام ایکٹرز کا احتساب کریں۔ ایک آواز آئی کہ اب تو کوئی پندرہ بیس سیاستدانوں کا احتساب شروع ہوا چاہتا ہے۔ یعنی جتنے منہ اُتنی باتیں۔
چیف جسٹس سے مطالبات اور توقعات کی فہرست طویل ہوتی جا رہی ہے۔ بہت سے لوگ چاہتے ہیں کہ چیف جسٹس ماضی کی تمام خرابیوں کے ہر ذمہ دار کو کٹہرے میں لا کھڑا کر یں چاہے کچھ بھی ہو جائے۔ جو ایسے مشورے چیف جسٹس کو دے رہے ہیں وہ اپنی پسند و ناپسند کی بنیاد پر جن کرداروں کو پسند نہیں کرتے اُن کے احتساب کا مطالبہ کر رہے ہیں اور چاہتے ہیںکہ یہ احتساب جسٹس فائز کریں اور سب سے پہلے کریں۔
مجھے امید ہے کہ چیف جسٹس اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے ہر ایسے مشورے کو سنا ان سنا کر دیں گے جو اُنہیں اپنے اصل فریضے کی بجائے عدلیہ، اسٹیبلشمنٹ سمیت ہر ادارےسے ٹکراؤ کی طرف لے جائے یا ایسے سیاسی تنازعات میں الجھا دے کہ وہ کچھ بھی کرنے کے قابل نہ رہیں۔ آئین و قانون کے تحت جو مقدمہ آئے اُس کا فیصلہ کریں۔ کوئی جج ہو، جرنیل یا سیاستدان، کسی کا بھی کوئی کیس ہو اُس کو میرٹ پر سن کر اُس کا فیصلہ کر دیں۔
ماضی میں جو بُرا ہو اُس کو ٹھیک کرنے میں لگ گئے تو پھر ماضی سے باہر نہیں نکل پائیں گے۔ ماضی کی غلطیوں کو سامنے رکھ کر اُن غلطیوں کو دہرانے سے گریز کریں ۔پاکستان اور عوام کے مستقبل کیلئے عدلیہ کی سمت درست کریں اور اسے اس قابل بنا دیں کہ وہ لوگوں کو انصاف دے، عوام کا عدالتوں پر اعتماد بحال ہو، مقدمات برسوں دہائیوں تک چلنے کی بجائے فوری اور سستے انصاف کی فراہمی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو۔دو چار ججوں کو کسی کی خواہش پر نکالنے کی بجائے ججوں کی تعیناتی کے نظام کی درستی زیادہ اہم ہے تاکہ میرٹ کی بنیاد پر صرف اہل افراد ہی جج بن سکیں۔
ججوں کے احتساب کے نظام کو ٹھیک کر دیں اور پھر نظام پر چھوڑ دیں کہ کس کا احتساب کرنا ہے۔ اگر سپریم کورٹ میں کوئی ستاون ہزار سے زیادہ مقدمات زیر التوا ہیں تو ہائی کورٹس اور ڈسٹرکٹ کورٹس کا حال تو بہت ہی بُرا ہے۔
چیف جسٹس اگر میڈیا کی ہیڈ لائنز بنانے میں پڑ گئے تو پھر اصل مسئلے کا حل اُن کیلئےناممکن ہو جائے گا۔ اصل مسئلہ عدالتی نظام کی درستی کا ہے جس کیلئے ویسے ہی جسٹس فائز عیسیٰ کے پاس وقت کم ہے۔
اگلے سال اکتوبر میںوہ ریٹائر ہو جائیں گے، اس لئےاگر وہ پاکستان کے عدالتی نظام میں ایسی اصلاحات لانے میں کامیاب ہو گئے کہ عدالتیں فوری اور سستا انصاف دینے لگیں تو یہ وہ کارنامہ ہو گا جو نہ صرف جسٹس فائز عیسیٰ کو تاریخ میں یاد رکھے بلکہ اس کا فائدہ پاکستان اور عوام کوبھی ہو گا۔
اصل توجہ اُس عدالتی نظام کی اصلاح پر ہونی چاہئے جو عوام کو انصاف دینے میں ناکام ہوچکاہے، جس پر کسی کو کوئی اعتماد نہیں اور اسی وجہ سےوہ دنیا میں آخری نمبروں پر گنا جاتا ہے۔