مشال ارشد سی ایم انڈرگراونڈ نیوز
متحدہ ہندوستان کی سیاست، تحریکِ آزادی، سماجی حالات اور علم و ادب میں دل چسپی رکھنے والوں کے لیے بلبلِ دکن مسز سروجنی نائیڈو کا نام نیا ہے اور نہ ہی ان کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج۔
وہ کُل ہند کانگریس کی روح و رواں رہی ہیں اور انگریز دور میں سیاسی قیدی بن کر خود کو خاتونِ آہن ثابت کیا ہے۔ ان کا مسلک یہ رہا کہ ہندو اور مسلمان باہم اتفاق اور اتحاد برقرار رکھتے ہوئے ہندوستان سے انگریزوں کو نکال باہر کریں اور اپنے وطن پر حکومت کی جائے۔
مسز سروجنی کی نظر میں عورتوں کی سماجی اور معاشرتی ترقی بہت اہمیت رکھتی تھی اور اس کے لیے بھی وہ جدوجہد کرتی رہیں۔
وہ فصیح و بلیغ مقررہ تھیں۔ کہتے ہیں کہ وہ تقریر نہیں کرتی تھیں بلکہ روانی، تسلسل اور زورِ بیاں کا دریا بہا دیتی تھیں۔ ان کا انداز اور تقریر دلوں میں طوفان برپا کر دیتی تھی۔
مختار مسعود جیسے صاحبِ طرز ادیب اور انشا پرداز نے اپنی مشہور تصنیف آوازِ دوست میں ان کا شخصی خاکہ کچھ یوں رقم کیا ہے۔
“دبلی پتلی ،بوٹا قد، تنگ دہن، آنکھیں کشادہ اور روشن، بالوں میں گھنگھر ہیں اور چھوٹا سا جوڑا گردن پر ڈھلکا ہوا ہے، جوڑے میں جڑاؤ پھول ہیں اور گلے میں موتیوں کا ہار۔
بائیں ہاتھ کی پہلی انگلی میں بڑی سی انگوٹھی ہے، ساڑی کا پلّو کاندھے پر کلپ سے بندھا ہوا، صورت من موہنی، پہلی نظر میں پُراثر، دوسری میں پُراسرار، میں نے بھی جب اس بُت کو دوسری بار نظر بھر کر دیکھا تو صورت ہی بدلی ہوئی تھی۔
ایک بھاری سانولی اور معمّر عورت نے سلک کی سلیٹی ساڑی باندھی ہے۔ پلّو سَر پر ہے، اور نصف چہرہ بھی اس میں چھپا ہوا ہے۔ اس نے دائیں ہاتھ سے ایک خوش نما قوس بنائی اور اسے ابرو کے سامنے لا کر سَر کی ہلکی سی جنبش کے ساتھ مسلم یونیورسٹی کورٹ کے اراکین کو جو وکٹوریا گیٹ میں صف بستہ کھڑے تھے، یوں آداب کیا، گویا وہ مسلم تمدن کا مرقع ہے یا شائستگی کا مجسمہ۔
آداب کرتے ہوئے ساڑی کا پلّو چہرے سے ڈھلک گیا تو ہم نے پہچانا کہ یہ سروجنی نائیڈو ہے۔”
آزادی کی یہ متوالی، عظیم راہ نما، دانش ور و مدبّر خاتون جو اردو اور انگریزی پر یکساں عبور رکھتی تھیں اور ہندو مسلم اتحاد کی زبردست حامی تھیں، ایک موقع پر مسلم یونیورسٹی کے جلسے میں شریک ہوئی تھیں۔ اس موقع پر سروجنی نائڈو کا زبردست استقبال ہوا تھا اور پورے اسلامی تمدّن اور تہذیب کے ساتھ ان کو صفِ اوّل میں بٹھایا گیا تھا۔ اس پورے منظر کو مختار مسعود نے اپنی تحریر میں گویا متحرک بنا دیا ہے۔ ظاہری اور باطنی اوصاف کے علاوہ طلبا کے استقبال کا انداز اور نائیڈو کی تقریر کا جوش اور اس میں حق و صداقت سے پُر آواز کا انھوں نے بھرپور نقشہ کھینچا ہے۔
ان کے قلم سے جلسے کی کیفیت اور تقریر کے انداز کو ملاحظہ کیجیے:۔
“میں آج مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں کئی لوگوں کے مشورے کے خلاف اور چند لوگوں کی دھمکی کے باوجود حاضر ہوئی ہوں، مجھے علی گڑھ کی ضلعی اور یو پی کی صوبائی کانگریس نے پہلے مشورہ اور پھر حکم دیا کہ تم مسلم یونیورسٹی کا دورہ منسوخ کر دو۔ انہیں یہ بات بھو ل گئی کہ گورنر کی حیثیت سے میں اب کانگریس کی ممبر نہیں رہی لہٰذا نہ ان کی رائے کی پابند ہوں نہ ان کے ضابطے سے مجبور، اور میں کسی کی دھمکیوں کو کب خاطر میں لاتی ہوں۔ میں حاضر ہوگئی ہوں، بلبل کو چمن میں جانے سے بھلا کون روک سکتا ہے؟،،
ایک دوسرے مقام پر وہ اسلام کے پیغامات کی صداقت اور حقانیت کا اعلان کرتے ہوئے یوں گویا ہوتی ہیں:۔
“اگرچہ میں تمہارے دوش بہ دوش کھڑے ہونے کے باوجود تمہاری نظروں میں ایک کافرہ ہوں مگر میں تمہارے سارے خوابوں میں شریک ہوں، میں تمہارے خوابوں اور بلند خیالوں میں بھی تمہارے دوش بدوش ہوں کیوں کہ اسلام کے نظریات بنیادی اور حتمی طور پر اتنے ترقّی پسند نظریات ہیں کہ کوئی انسان جو ترقّی سے محبّت کرتا ہو ان پر ایمان لانے سے انکار نہیں کر سکتا۔”
مختار مسعود نے دل نشیں پیرائے میں سروجنی نائیڈو کی جلسے میں آمد اور ان کے خیالات کو ہمارے سامنے پیش کیا ہے اور ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو روشن کیا ہے اور ان کی تقریر کو لفظوں کی خوب صورت لڑی میں یوں پرویا ہے کہ ہر لفظ ذہن و دل پر نقش ہوا جاتا ہے۔