لندن (عارف چودھری )
میڈیا سے بات کرتے ہوئے براڈ شیٹ کے سی ای او اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے سابق ایسوسی ایشن کاوے موسوی نے کہاکہ وہ دودہائیوں تک احتساب کے نام پر نوازشریف کو نشانہ بنانے کی کارروائیوں کا حصہ بننے پر شرمسار ہیں۔
انہوں نے کہاکہ وہ ریکارڈ کی درستگی کے لئے معافی چاہتے ہیں کیونکہ دودہائیوں سے جاری براڈ شیٹ کی فرانزک تحقیقات کے دوران نواز شریف یا ان کی فیملی کے حوالے سے ’’ایک روپیہ‘‘ کی کرپشن کا معمولی ثبوت بھی نہیں ملا۔
گزشتہ برس کاوے موسوی حکومت پاکستان کے خلاف 30ملین ڈالر کا کیس اس وقت جیتا جب ہائی کورٹ کی مصالحتی عدالت کے جج سر انتھونی نے کاوے موسوی کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔
اس کیس پر پاکستان کے 65ملین ڈالر سے زائد کے اخراجات اٹھے تھے۔ کاوے موسوی نے بین الاقوامی ثالثی عدالت میں بین الاقوامی ثالث کے طور پر اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے سینٹر فار سوشیولیگل اسٹڈیز میں ایسوسی ایٹ فیلو اور بطور بیڈ آف پبلک انٹرسٹ لاء کام کیا ہے۔
براڈ شیٹ نے 1999ء میں پرویز مشرف حکومت کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا تاکہ نواز شریف، بے نظیر بھٹو اور سول و فوجی پس منظر رکھنے والے سیکڑوں پاکستانیوں کی طرف سے مبینہ طور پر لوٹی گئی رقم کا پتہ چلا یا جا سکے۔
کاوے موسوی نے کہاکہ براڈ شیٹ کی تحقیقات کے نتیجہ میں سابق وزیراعظم نواز شریف یاان کے خاندان کے کسی بھی فرد سے متعلق بدعنوانی، چوری شدہ ، چھپی ہوئی یا ایسی دولت جس کے ذرائع کے متعلق نہ بتایا جاسکے، ایسی دولت کا ایک روپیہ بھی نہیں ملا۔ انہوں نے کہاکہ لوٹی ہوئی دولت تو بہت ملی، لیکن میں تقریباً 21سالہ تحقیقات کے بعد کہہ سکتا ہوں کہ اگر کوئی شخص میرے دعوے کے خلاف بات کرتا ہے تو وہ جھوٹ بول رہا ہے۔
کاوے موسوی جنہوں نے قومی احتساب بیورو( نیب) کے ساتھ بڑے پیمانے پرڈیل کی۔ ان کا کہنا تھاکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ نیب نے سیاسی بنیادوں پر نواز شریف کے خلا ف مقدمات بنائے اور یہ بھی وجہ ہے کہ وہ آج نواز شریف سے معافی کے طلب گار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’’مجھے سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف نیب کی دھوکہ دہی کاحصہ بننے پر معافی مانگنے پر کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ جانتے ہیں کہ نواز شریف سے معافی مانگنے کے گہرے سیاسی نتائج ہوں گے تو کاوے موسوی نے نوازشریف کو براہ راست مخاطب کرتے ہوئے اپنی معذرت دہرائی۔’’میں اسے دہراتا ہوں۔‘‘
مسٹر شریف ہم آپ سے معذرت خواہ ہیں، کیونکہ مسٹر شریف آپ واضح طور پر ایک بڑے منظم اسیکنڈل کا نشانہ بنے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ جب حقائق بدلتے ہیں تو میں نے اپنے خیالات بھی بدل سکتا ہوں۔
22برس قبل جب پرویز مشرف نے آپ کے خلاف تحقیقات کرنے کو کہا تو ہمیں قائل کیا گیا تھا اور ہم نے تحقیقات شروع کیں۔ لیکن ہم نے دیکھا کہ ہرموڑ پر تحقیقات کوسبوتاژ کیاگیا، اس لئے نہیں کہ ہم چیزوں کے قریب جا رہے تھے بلکہ اس لئے کہ ان کی نیت کچھ اورتھا کیونکہ ان کا مقصد صرف نشانہ بنانا تھا۔ لوٹی ہوئی دولت کو تلاش کرنے سے انہیں کوئی سروکار نہیں تھا۔ کاو ے موسوی نے کہا کہ ’’ہم آزادانہ طور پر آگے بڑھ اور میں آپ کو واضح طور پر بتا سکتا ہوں کہ ہمیں مسروقہ اثاثے یا اثاثوں کا ایک روپیہ بھی نہیں ملا۔
جس کا تعلق نواز شریف یا ان کے خاندان کے ساتھ جوڑا جاسکے۔ کاوے موسوی نے اس الزام کے حوالے سے اپنے کردار کے بارے میں بھی کی جو 2018ء کے انتخابات کے دوران سامنے آیا تھا کہ نوازشریف نے مشرق بعیدہ کے بینک میں دسیوں ملین ڈالر رکھے تھے اور اس وقت قوت رکھنے والے حلقوں تک بھی یہ الزام پہنچا تھا۔ موسوی نے کہاکہ یہ رقم فرضی تھی اور اس الزام میں بھی کوئی صداقت نہیں تھی۔
کاوے موسوی نے کہا کہ ’’میں محسوس کرتا ہوں کہ ہم بھی نیب نامی کریمنل آرگنائزیشن کی غلط بیانی کا شکار تھے۔ ہماری نیت صاف تھی۔ لندن میں ٹریبونل میں معاملے کے اختتام تک ہمیں جو بھی معلومات ملیں ہم نے انہیں نیب تک پہنچایا لیکن انہوں نے کوئی دلچسپی نہیں لی۔
میری اپنی تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ سراسر دھوکہ تھا۔ انہیںکوئی دلچسپی نہیں تھی اور مجھ سے منسوب کوئی بھی الزام بغیر کسی ہچکچاہٹ کے واپس لیتا ہوں۔