مشال ارشد سی ایم انڈر گراؤنڈ نیوز
مردہ تصور کر کے لاپتا افراد کی فہرست میں شامل بلوچ نوجوان نے میڈیا کے سامنے آ کر ریاستی اداروں کے خلاف پروپیگنڈے کو بے نقاب کر دیا۔
قبائلی رہنما سردار نور احمد بنگلزئی کا بلوچ نوجوان ظہیر احمد کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہنا تھا زیارت آپریشن سے متعلق جوڈیشل کمیشن کی حمایت کرتا ہوں، جوڈیشل کمیشن بنانا ہے تو زیارت کے پورے واقعے پر بنایا جائے، جوڈیشل کمیشن بنانا ہے تو ان افراد پر بھی بنایا جائے کہ جنہیں اغوا کیا گیا اور مارا گیا، جوڈیشل کمیشن بنانا ہے تو اس پر بنایا جائے جو دہشتگرد کوئلے کی کان کے مالکان سے بھتہ لیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایک ریاست کے ہوتے ہوئے دوسری ریاست کیسے بنائی جا سکتی ہے، جوڈیشل کمیشن بنایا جائے کہ جو لاپتا ہیں کیا وہ واقعی لاپتا ہیں، ایک بندے کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ لاپتا تھا، وہ آج آپ کے سامنے موجود ہے۔
سردار نور احمد بنگلزئی نے کہا کہ ہماری بیٹیوں اور ماؤں بہنوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، ہمارے معصوم لوگوں اور نوحوانوں کو استعمال کیا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ زیارت میں ایک واقعہ پیش آیا تھا جس میں ایک فوجی افسر اغوا ہوا تھا، زیارت واقعے کے بعد کچھ لوگ مارے گئے، بتایا گیا ظہیر بلوچ نام کا شخص بھی شامل تھا، اس واقعہ کو لےکر کچھ لوگ کوئٹہ کے ریڈ زون پر احتجاج کر رہے ہیں، لاپتا افراد کے اہلخانہ ظہیر کی تصویر لیے احتجاج کر رہے ہیں اور وہ زندہ میرے ساتھ بیٹھا ہے۔
ظہیر بلوچ نے بتایا کہ مجھے یورپ جانے کا ایک موقع ملا تھا، میں وہاں جانا چاہتا تھا، ایجنٹ کے ذریعے نوشکی اور تفتان کے راستے ایران گیا جہاں فورسز نے گرفتار کر لیا، 10 ماہ ایران میں زیر حراست رہا، اس کے بعد پاک ایران سرحد پر رہا کیا گیا۔
لاپتا افراد میں شامل نوجوان نے بتایا کہ نوشکی واپس پہنچا تو کزن نے بتایا کہ آپ کو تو مرا ہوا تصور کر لیا گیا ہے اور فاتحہ خوانی بھی ہو چکی ہے، میرا کسی تنظیم سے کوئی تعلق نہیں ہے، میں کسی ادارے کے خلاف بھی نہیں ہوں۔
ظہیر بلوچ کے بھائی خورشید نے بتایا کہ ظہیر بلوچ کی گمشدگی کا مقدمہ درج کیا گیا تھا، پریشان تھے، 18 تاریخ کو زیارت واقعہ کے بعد ہمیں بتایا گیا کہ ان کی باڈی اسپتال سے لے لیں، ہمیں خوشی ہے کہ ہمارا بھائی زندہ سلامت ہے۔