(مصبا ح لطیف اے ای انڈرگرائونڈ نیوز)
پاکستان تحریک انصاف کے بی آر ٹی سروس سے متعلق تمام دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔
تحریک انصاف نے دعویٰ کیا تھا کہ بی آر ٹی بس سروس نہ صرف سستا ترین منصوبہ ہوگا بلکہ اس میں ملک کے دیگر شہروں میں چلنے والے میٹرو بس منصوبوں کی طرح سبسڈی دی جائے گی۔
بس سروس کو شروع ہوئے 34 ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے اور یوں تمام دعوے غلط ثابت ہوئے، منصوبہ تاحال مکمل نہیں کیا جاسکا جب کہ اس کی لاگت ایک کھرب روپے سے تجاوز کرگئی ہے۔
سابق وزیراعلیٰ پرویز خٹک کا دعویٰ تھا کہ پی ٹی آئی حکومت کا میگا بی آر ٹی پراجیکٹ پوری دنیا کے مقابلے میں کم لاگت، تیز ترین تعمیر ہونے والا اور اپنے اخراجات خود برداشت کرنے والا منصوبہ ہوگا تاہم صورتحال اس کے برعکس ہے۔
تین سال ہونے کو ہیں لیکن منصوبہ مکمل ہوا اور نہ ہی اپنے پاؤں پر کھڑا ہوسکا، منصوبے کی لاگت ایک کھرب روپے سے بڑھ گئی جب کہ اس کو سالانہ 2 ارب روپے سے زیادہ کی سبسڈی دی جا رہی ہے۔
تحقیقات کی خواہشمند نگران حکومت نے بی آر ٹی منصوبے کی انکوائری پرسپریم کورٹ کا حکم امتناع ختم کرنے کے لیے درخواست دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
پی ٹی آئی حکومت کے سابق صوبائی وزرا اس میگا منصوبے کو صرف ایک سال میں مکمل کرنے کا دعوے کرتے رہے۔
منصوبے کے تحت چمکنی، ڈبگری اور حیات آباد میں بننے والے تین کمرشل پلازوں پر کام مکمل نہ ہوسکا جس کے باعث منصوبے آمدن کی بجائے خسارے میں ہیں، منصوبہ کو دی جانے والی سبسڈی پر ترجمان ٹرانس نے بھی نرالی منطق پیش کر دی۔
محکمہ ٹرانسپورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق بی آر ٹی سے سالانہ آمدن ایک ارب 10 کروڑ روپے سے زیادہ ہے تاہم منصوبہ پھر بھی خسارے کا شکار ہے، منصوبے کے تحت 8 فیڈر روٹس پر بسیں چلائی جانی تھیں تاہم اب تک 6 پر ہی چلائی جارہی ہیں۔
بی آر ٹی منصوبے کو 49 ارب روپے میں مکمل کیا جانا تھا تاہم اس پر ایک کھرب روپے سے زیادہ خرچ ہوچکے ہیں، منصوبہ مالی بحران سے دوچار خیبر پختونخوا حکومت کے لیے سفید ہاتھی ثابت ہو رہا ہے۔