مصبا ح لطیف (اے ای انڈرگرائونڈ نیوز)
7 اکتوبر کو غزہ شہر کے علاقے الزیتون کی 3 منزلہ رہائشی عمارت کو اسرائیلی فضائی حملے میں نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں ایک خاندان کے 15 افراد اور 3 نسلیں شہید ہوگئیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق اس حملے میں Awni الدوس اور ان کی اہلیہ ابتسام، بیٹا عدیل، بہو اور 5 پوتے پوتیاں شہید ہوئے۔
رشتے داروں، پڑوسیوں اور امدادی ٹیموں کو ملبے سے لاشوں کو نکالنے میں 6 گھنٹے سے زیادہ وقت لگا۔
عدیل کے بھائی محمد الدوس نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کو بتایا کہ ہمارا پورا خاندان تباہ ہوگیا۔
اس حملے میں محمد الدوس کے 5 سالہ بیٹے سمیت دیگر 8 رشتے دار بھی شہید ہوئے تھے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق 7 سے 12 اکتوبر کے دوران محمد الدوس سمیت 5 مختلف واقعات میں 12 مکمل فلسطینی خاندانوں کا وجود صفحہ ہستی سے مٹ گیا۔
دوسری جانب فلسطینی وزارت صحت کی جانب سے 15 اکتوبر کو جاری رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ 47 خاندان (جن میں 500 سے زائد افراد شامل تھے) کا نام سول رجسٹری سے مٹ گیا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سیکرٹری جنرل Agnes Callamard نے بتایا کہ ‘یہ تعداد اس سے بھی زیادہ ہوگی’۔
فلسطین نیوز اینڈ انفارمیشن ایجنسی کے مطابق اسرائیلی جارحیت کے باعث 28 اکتوبر تک 825 خاندانوں کا نام و نشان صفحہ ہستی سے مٹ گیا تھا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں کہا گیا کہ پورے پورے خاندانوں کی شہادت غزہ میں ہونے والی تباہی کا دلخراش پہلو ہے، کیونکہ یہ صرف انسانی زندگیوں کا نقصان نہیں بلکہ متعدد خاندانوں کی یادیں، تاریخ اور نسلوں کا بھی ختم ہونا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے جن واقعات کو رپورٹ کیا ہے، ان کے بارے میں عالمی ادارے کا کہنا تھا کہ اسرائیل کی جانب سے یہ حملے بلا امتیاز کیے گئے اور ان کے دوران شہری انفرا اسٹرکچر کا خیال نہیں رکھا گیا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے یہ تفصیلات غزہ میں فیلڈ ورکرز کے ذریعے حاصل کیں۔
ان فیلڈ ورکرز نے عینی شاہدین کے انٹرویو کیے، متاثرہ مقامات کا دورہ کیا اور دیگر شواہد بھی اکٹھے کیے۔
اس کے ساتھ ساتھ Crisis Evidence Lab نے متاثرہ مقامات کے سیٹلائیٹ ڈیٹا کا تجزیہ بھی کیا۔
رپورٹ میں 10 اکتوبر کے ایک واقعے کے بارے میں بھی بتایا گیا جس میں اسرائیل نے غزہ شہر میں ایک 6 منزل عمارت کو ہدف بنایا، جس سے کم از کم 40 شہری شہید ہوئے۔
ان میں محمود Ashour کی بیٹی اور اس کے 4 بچے بھی شامل تھے۔
اس عمارت کا ملبہ اٹھانے والے محمود Ashour نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کو بتایا کہ ‘میں اپنے خاندان کا تحفظ نہیں کرسکا، میری بیٹی کا کوئی سراغ نہیں مل رہا’۔
اس حملے میں 61 سالہ Fawzi Naffar کے خاندان کے 19 افراد بھی شہید ہوئے، جن میں ان کی اہلیہ، بچے اور پوتے پوتیاں شامل تھے۔
مگر انہیں چند اعضا کے ٹکڑوں کے علاوہ اپنے پیاروں کی میتیں نہیں مل سکیں۔
لندن یونیورسٹی کی پروفیسر Dina Matar نے بتایا کہ پورے پورے فلسطینی خاندانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا یہ سلسلہ نیا نہیں بلکہ 1948 سے ایسا ہو رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ آفیشل صہیونی دستاویزات میں فلسطینیوں کو ہٹانے کی منصوبہ بندی ثابت ہوتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ خاندانوں کو ختم کرنا بین الاقوامی قوانین کے تحت جنگی جرائم میں شامل ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کا بھی یہی ماننا ہے کہ اور اسی وجہ سے اس کی جانب سے بین الاقوامی فوجداری عدالت پر زور دیا گیا ہے کہ وہ جنگی جرائم کے شواہد پر تحقیقات کرے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں کہا گیا کہ انصاف کی فراہمی اور اسرائیل کے فلسطینیوں کے خلاف نسلی امتیاز کے نظام کے خاتمے تک عام شہریوں کی مشکلات کا اختتام نہیں ہو سکتا۔