مصبا ح لطیف (اے ای انڈرگرائونڈ نیوز)
پاکستان میں امریکا کے سفیر ڈونلڈ بلوم نے کہا ہے کہ پاک امریکا تعلقات سکیورٹی سے آگے بڑھ کر اب اقتصادی استحکام پر مرکوز ہوگئے ہیں۔
انہوں نے یہ بات امریکا سےآئے وفد سے ملاقات میں کہی ،76 برسوں میں پاکستان اور امریکا کے تعلقات کا زیادہ تر محور سکیورٹی رہا ہے تاہم امریکی سفیر نے نیویارک کے ڈپٹی اسپیکر فل راموس اور امریکن پاکستانی پبلک افئیرز کمیٹی کے وفد سے اسلام آباد میں ملاقات کے موقع پر کہا کہ یہ تعلقات اب پاکستان کے اقتصادی استحکام پر مرکوز ہوچکے ہیں۔
جب پاکستان ڈیفالٹ کے دہانے پر تھا تو اس وقت ڈونلڈ بلوم نے محکمہ خارجہ کو پاکستان کا کیس پیش کیا تھا کہ آئی ایم ایف کو پاکستان کی امداد کرنا چاہیے، ڈونلڈ بلوم اور اسحاق ڈارہی کی کوششوں سے ڈیفالٹ کا خطرہ ٹلا تھا۔
دوران ملاقات ڈونلڈ بلوم نے کہا کہ معاشی استحکام کے لیے پاکستان کوپالیسیوں میں شفافیت، منصفانہ پن اور پائیداری پر توجہ دی جانی چاہیے۔
انہوں نے بتایا کہ امریکا گرین انرجی پالیسی کو پروموٹ کررہا ہے کیونکہ اس سے پاکستان کی معیشت کا نہ صرف پہیہ چل سکتا ہے بلکہ پاکستان کی اقتصادی آزادی بھی ممکن رہ سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ گرین الائنس کی بدولت کلائمٹ، توانائی، پانی اور پاکستان کی دیگر اقتصادی ضرورت بھی محفوظ رہ سکتی ہیں۔ انہوں نے اس حوالے سے جاری کئی منصوبوں کا ذکر بھی کیا۔
امریکی ویزوں کے اجرا میں طویل وقت لگنے سے متعلق سوال پر ڈونلڈ بلوم نے کہا کہ یہ حساب کا سوال ہے کیونکہ درخواستیں زیادہ اور عملہ کم ہو تو ویزا کی پراسسینگ میں وقت زیادہ ہوجاتا ہے تاہم اب یہ مدت 180 سے کم ہوکر 140 روز پرآچکی ہے اور جلد ہی وقت مزید کم ہوجائے گا، ڈونلڈ بلوم نےسندھ اور پنجاب کونیویارک کی سسٹر اسٹیٹ بنانے کی کوششوں کوبھی سراہا۔
وفد نے کراچی میں امریکی قونصل جنرل کونراڈ ٹریبل سے بھی ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی۔ سسٹراسٹیٹ معاملے میں کونراڈ ٹریبل کی بھی طویل عرصےسے دلچسپی رہی ہے۔ ٹریبل نے اپنے سفارتی کیرئیر کا آغاز چلی سے کیا تھا جس کا شہر سنیتاگو امریکی ریاست منی سوٹا کے شہر منیاپلس کا سسٹرسٹی ہے۔
ٹریبل ہیٹی کے دارالحکومت پورٹ او پرنس میں سیاسی قونصلر بھی رہے ہیں۔ پورٹ او پرنس امریکا کی ریاست فلوریڈا کےشہر میامی کا سسٹر سٹی ہے۔ ٹریبل نے وفد کو بتایا کہ سسٹرسٹی کے تحت انہوں نے عوام سے عوام کے رشتے کس انداز سے مضبوط کیے تھے۔
وفد نے پانی پر اکتفا کیا تو قونصل جنرل نے ازراہ مذاق کہا کہ ‘آپ لوگ خوب انجوائے کررہےہیں’ درحقیقت وہ جانتے تھے کہ وفد کو یہاں سے پاکستان نرسنگ اینڈ مڈ وائفری کونسل کے صدر جواد امین خان کی جانب سے دیے گئے عشایہ میں شرکت کرنا ہے جہاں قونصل جنرل خود بھی مدعو تھے مگر پہلے سے طے مصروفیات کےسبب کونراڈ ٹریبل نے کسی اور جگہ شرکت کرنا تھی۔
فل راموس کی قیادت میں وفد سب سے پہلے لاہور آیا تھا جہاں اس نے امریکی قونصل جنرل کرسٹین ہاکنز سے انکی رہائش گاہ پر ملاقات کی تھی۔ ہاکنز جانتی تھیں کہ فل راموس نے تجارت، صحت اور تعلیم کے شعبوں کو ترجیح قرار دیا ہے۔
ہاکنز نے فل راموس اور اے پی پیک کو ان تینوں شعبوں میں ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی۔
پنجاب اورسندھ کو نیویارک کی سسٹراسٹیٹ بنانے کی تجویز پیش کرنے کے سبب اس نمائندے نے بھی اسلام آباد اور کراچی میں ہوئی ملاقاتوں میں وفد کے رکن کے طورپر شرکت کی اور دو باتیں خاص طورپر نوٹ کیں۔
پہلی یہ کہ امریکی سفیر ہوں یا قونصل جنرل، ہر ایک وفد سے تعاون پر دل وجان سے آمادہ نظر آیا،ہر ایک کی زبان پر ایک ہی جملہ تھا کہ ؛آپ بتائیں ہم آپ کیلئے کیا کرسکتے ہیں؟’
دوسرے یہ کہ صبح سویرے ناشتہ پرملاقات ہوئی ہو، شام کو چائے یا عشائیہ کے موقع پر، پرتعیش ایشا کی بجائے کھانا یا مشروبات وہ پیش کیے گئے جو عموما لوگ اپنے گھروں میں کھا کرلطف اٹھاتے ہیں۔ان میٹنگز میں سب سے اہم توجہ جس بات پرتھی وہ یہ کہ بات چیت کا نتیجہ تعمیری پیشرفت کی صورت میں نکلے۔