مصبا ح لطیف (اے ای انڈرگرائونڈ نیوز)
اسلام آباد: سپریم کورٹ کے جج جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی کو استعفے کے بعد مکمل پنشن مراعات ملیں گی اور سپریم جوڈیشل کونسل میں جاری ان کیخلاف مبینہ کرپشن کی کارروائی پر ان کا احتساب نہیں ہوگا۔
یہ اعلیٰ عدلیہ کے ناقص نظامِ احتساب کا ایک بہترین کیس ہے، جو بدعنوانی یا بدعنوانی کے الزامات کا سامنا کرنے والے جج کے احتساب کی بجائے اسے مستعفی ہونے کی اجازت دیتا ہے تاکہ وہ کرپشن کی مبینہ رقم اور پنشنری فوائد دونوں سے لطف اندوز ہو سکیں اور ایسے شخص کو دوبارہ کبھی خوف نہیں ہوتا کہ اس سے اس کے غلط کاموں کا حساب لیا جائے گا۔
چند سال قبل، لاہور ہائی کورٹ کے ایک جج کرپشن ریفرنس کے سلسلے میں سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے پیش ہونے سے صرف دو روز قبل استعفیٰ دیکر احتساب سے بچ گئے تھے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق جج کے ڈرائیور کے نام پر بڑے پیمانے پر بینک ٹرانزیکشن کا انکشاف ہوا تھا۔ یہ لین دین مبینہ طور پر جج کی طرف سے تھا جس کی وجہ سے تحقیقات کا آغاز ہوا۔ اسی طرح اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک جج نے غیر قانونی تقرریوں کے ایک مبینہ کیس میں سپریم جوڈیشل کونسل کا سامنا کرنے کے بجائے ریٹائر ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔
ججوں کے احتساب کے ناقص نظام پر توجہ دینے کے بجائے، سپریم کورٹ نے جون 2023 میں یہ بھی کہا تھا کہ آرٹیکل 209 کا اطلاق ایسے شخص پر نہیں ہوتا جو ہائی کورٹ یا پھر سپریم کورٹ کے جج کے عہدے سے ریٹائر ہوچکا ہو یا استعفیٰ دے چکا ہو۔ یہ آرٹیکل بدعنوانی کی وجہ سے اعلیٰ عدالت کے جج کو ہٹانے سے متعلق ہے۔ (اعلیٰ عدالت کے جج کے مبینہ بدانتظامی کیخلاف) تجویز کی منطق پر اس طرح کی شکایت ریٹائرمنٹ یا استعفیٰ کے برسوں بعد بھی دائر کی جا سکتی ہے۔
سپریم کورٹ نے سول سوسائٹی کے ارکان کی طرف سے دائر آئینی درخواست کو خارج کر دیا تھا جس میں سپریم جوڈیشل کونسل سے رہنمائی حاصل کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔ یہ ایک آئینی فورم ہے جو اعلیٰ عدالت کے ججوں کو جوابدہ ٹھہرا سکتا ہے۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ آئین ایک ایسے شخص کے درمیان فرق کرتا ہے، جو متعلقہ وقت پر، جج کے عہدے پر فائز ہوتا ہے اور وہ، جو ماضی میں اس عہدے پر فائز رہا ہے، لیکن اب وہ فائز نہیں ہے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 209 صرف سابقہ پر لاگو ہوتا ہے نہ کہ آخر الذکر پر۔
سپریم جوڈیشل کونسل نے گزشتہ سال 27 اکتوبر کو جسٹس مظاہر نقوی کو بنچ میں تبدیلی اور مالی بے ضابطگیوں پر اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کیا تھا۔ ان کیخلاف پاکستان بار کونسل، ایڈووکیٹ میاں داؤد اور دیگر نے شکایات دائر کی تھیں۔
20 نومبر کو، انہوں نے سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی اور اظہار وجوہ کے نوٹس کو چیلنج کیا اور ساتھ ہی یہ موقف اختیار کیا کہ کارروائی کا آغاز غیر عدالتی اور قانونی اختیار کے بغیر تھا۔ گزشتہ ہفتے جسٹس مظاہر نقوی نے آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی، جس میں انہوں نے اپنے خلاف دائر شکایات کو عدلیہ کی آزادی پر براہ راست اور صریح حملہ قرار دیا تھا۔
ان کے استعفیٰ سے ایک دن قبل، سپریم کورٹ نے سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی روکنے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ میرٹ پر کیس کی سماعت کے بعد حکم امتناع جاری نہیں کیا جا سکتا۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد جسٹس نقوی کے پاس کارروائی کا سامنا کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا۔ ملازمت سے ممکنہ برطرفی سے بچنے کیلئے انہوں نے ریٹائر ہونے کا فیصلہ کیا۔