Reg: 12841587     

سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسی نظر ثانی کیس کی سماعت

ہیڈ آف نیوز اسلام آباد منتظر مہدی

سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسی نظر ثانی کیس کی سماعت کے دوران وفاقی حکومت کے وکیل کو براہ راست نقطہ پر آ کر عدالت کا وقت بچانے کی جسٹس مقبول باقر کی ہدایت پر بینچ کے ممبر ججز میں تلخ جملوں کا تبادلہ ، جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے جسٹس مقبول باقر کے روئیے کو ناقابل برداشت جبکہ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس مظہر عالم نے جسٹس مقبول باقر کی اخلاقی سپورٹ جاری رکھی ، بینچ کے سربراه جسٹس عمر عطاء بندیال نے بینچ کے ممبر ججز کے اختلافات سامنے آنے پر عدالتی کاروائی معطل کروا کر معاملہ ٹھنڈا کیا ، عدالت عظمیٰ نے ایڈینشل اٹارنی جنرل عامر رحمان کو دلائل مکمل کرنے کا ٹائم فریم دینے کی ہدایت کرتے ہوۓ معاملہ کی سماعت ایک دن تک کے لئے ملتوی کر دی ہے۔ جمعرات کو معامله کی سماعت جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں دس رکنی لارجر بینچ نے کی۔ دوران سماعت جسٹس عمر عطاء بندیال کو عدالتی کاروائی اس وقت دس منٹ کے لئے موخر کرنا پڑی جب جسٹس مقبول باقر کی طرف سے عامر رحمان کو وقت کی کمی کو ملحوظ خاطر رکھنے کی ہدایت پر بینچ کے دوسرا مائنڈ سیٹ رکھنے والے ممبر جج جسٹس منیب اختر نے عامر رحمان کو اپنی مرضی کے مطابق وقت لینے کے ریمارکس دئیے ، اس موقع پر جسٹس مقبول باقر نے بینچ سربراہ کو مخاطب کرتے ہوۓ ریمارکس دئیے کہ ایک جونیئر جج کی طرف سے سینئر کی بات کا کاٹنے کا عمل ناقابل برداشت ہے حکومت کے معاملے کو لٹکانے کے لئے استعمال کے جانے والے تاخیری حربے کیس کی اہمیت مٹانے کی کوشش ہے۔جسٹس مقبول باقر اپنے ریمارکس دیتے ہوۓ اٹھ کھڑے ہوۓ اور جسٹس عمر عطاء بندیال کو دس منٹ کہ لئے عدالتی کروائی موخر کرنا پڑی۔جمعرات کو کیس کی سماعت کے آغاز پر ایڈینشل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے اپنے دلائل دیتے ہوۓ موقف اپنایا کہ سرینا عیسی کو سماعت کا پورا موقع دیا گیا تھا،ایک جج پر حرف آنا پوری عدلیہ پر حرف آنے کے برابر ہے،ایف بی آر کو ڈیڈ لائینز دینے کی وجہ بھی کیس کا جلد فیصلہ کرنا تھا،باضابطہ سماعت کا طریقہ کار کیا ہو گا تعین کرنا عدالت کا کام ہے،عدالت نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا موقف تفصیل سے سنا تھا،سماعت کا طریقہ کیا ہونا چاہیے تھا یہ عدالت کا انتظامی اختیار ہے،عدالت کے انتظامی اختیار کے حوالے سے نظرثانی درخواست دائر نہیں ہو سکتی، سرینا عیسیٰ کے لیے متعلقہ فورم ایف بی آر ہی تھا،عدالت نے سرینا عیسیٰ کے خلاف کوئی حکم جاری نہیں کیا تھا،سماعت کی ضرورت کسی کے خلاف فیصلہ دینے کے لیے ہوتی ہے،کیس ایف بی آر کو بھیجوانے سے پہلے بھی سرینا عیسیٰ کو سنا گیا،یہ فرض کیا گیا کہ ایف بی آر کارروائی نہیں کرتا،سپریم کورٹ آف شور کمپنیوں کیخلاف کارروائی کا حکم دے چکی،ایف بی آر کارروائی نہ کرتا تو توہین عدالت ہوتی،ایف بی آر نے اگر غلطی کی ہے تو اس بنا پر نظر ثانی نہیں ہو سکتی،ایف بی آر میں جو کارروائی ہوئی وہ عدالتی فیصلے کا نتیجہ تھا،سرینا عیسیٰ نے ایف بی آر میں اپنا موقف اور دستاویزات پیش کیں،نظر ثانی درخواستوں میں یہ نقاط نہیں اٹھائے جا سکتے،نظر ثانی کا دائرہ اختیار بہت محدود ہوتا ہے،سپریم کورٹ کے اختیارات پر عدالتی فیصلے موجود ہیں،آف شور جائیدادوں کیخلاف ایف بی آر کارروائی نہ کرتا تو توہینِ عدالت کا مرتکب ہوتا،حج کرپشن کیس ملزمان کو سنے بغیر تحقیقات کے لیے بھیجا گیا تھا،سرینا عیسیٰ کا موقف تو عدالت نے ویڈیو لنک پر سنا تھا،درخواست گزار کی طرف سے میرے دلائل پر اعتراض کیا جارہا ہے،ایسا ہی کرنا ہے تو ہم سے تحریری دلائل لے لیے جائیں۔درخواست گزار جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دوران سماعت سرکاری وکیل کے دلائل پر اعتراض اٹھاتے ہوۓ موقف اپنایا کہ وفاقی حکومت نے کوئی نظر ثانی درخواست دائر نہیں کی،ایف بی آر کا معاملہ میری اہلیہ اور ادارے کے درمیان ہے،حکومت صرف کیس لٹکانے کی کوشش کررہی ہے،حکومت چاہتی ہے جسٹس منظور ملک کی ریٹائرمنٹ تک کیس لٹکایا جائے، عدالتی فیصلے میں نہیں کہا گیا کہ سرینا عیسیٰ کا کیس ارٹیکل 187 کے تحت ایف بی آر کو بھیجا گیا،مکمل انصاف کا تقاضا ہے کہ کیس کو جلد مکمل کیا جائے۔دوران سماعت جسٹس منصور علی شاہ نے ایک موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوۓ ریمارکس دئیے کہ آپ جس عدالتی فیصلے کا حوالہ دے رہے ہیں وہ زیر سماعت مقدمے سے مختلف ہے،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف صدارتی ریفرنس اکثریتی ججز نے خارج کردیا،گھر میں بیٹھی جج کی فیملی کیخلاف کارروائی شروع ہو گئی،سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ایف بی آر خود کارروائی شروع کرتی یا نہیں،ہمیں معلوم نہیں،ایف بی آر نے جج صاحب کے اہل خانہ کیخلاف تحقیقات ہمارے حکم کی روشنی میں شروع کیں،صدارتی ریفرنس اے کیخلاف تھا کارروائی بی کے خلاف شروع ہو گئی، کوئی ایسا قانون بتائیں خاوند کیخلاف انکوائری بند ہوکر بیوی کیخلاف شروع ہو جائے۔دوران سماعت بینچ کے ممبر ججز کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ شروع ہونے پر بینچ کے سربراه جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دئیے کہ جب آپ پانی نہ پی سکیں تو تازہ ہوا میں سانس کافی ہوتا ہے،روزہ کی وجہ سے ہم بھی تازہ ہوا میں سانس لیکر آئے ہیں، جسٹس مقبول باقر بینچ کی محبوبہ ہیں،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی عامر رحمان کے کنڈکٹ سے متعلق بات غیر مناسب ہے۔عدالت عظمیٰ نے وفاقی حکومت کے وکیل کو آئندہ کل اپنے دلائل جاری رکھنے اور دلائل مکمل کرنے کا ٹائم فریم دینے کی ہدایت دیتے ہوۓ معاملے کی سماعت این دن کے لئے ملتوی کر دی ہے۔۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Previous Post

امارات ائرلائن مشکل میں ، دبئی حکومت سے مدد کی طلب گار

Next Post

آزاد کشمیر کے سابق وزیراعظم و پاکستان تحریک انصاف آزاد جموں و کشمیر کے صدر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کی اسلام آباد میں اسپیکراسد قیصر سے تفصیلی ملاقات

Related Posts
Total
20
Share