مشال ارشد سی ایم انڈرگراونڈ نیوز
دنیا کی سب سے بڑی سرچ انجن و انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کمپنی گوگل کی جانب سے جلد کے امراض کی ابتدائی تشخیص کے لیے بنائے گئے آن لائن ٹول پر ماہرین نے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے اسے حقیقت سے بالاتر قرار دیا ہے۔
خبر رساں ادارے’رائٹرز’کے مطابق گوگل نے گزشتہ ماہ مئی میں ہی آرٹیفشل انٹیلی جنس (مصنوعی ذہانت) کی مدد سے تیار کیے گئے اپنے آن لائن ٹول سے متعلق اعلان کیا تھا اور اب مذکورہ ٹول کی تکمیل مکمل ہونے پر ماہرین نے خدشات کا اظہار کیا ہے۔
گوگل کے مطابق اس نے کئی تحقیقات اور جلد کے امراض میں مبتلا ہزاروں افراد کی تصاویر کا جائزہ لینے کے بعد تین سال کی محنت سے مصنوعی ذہانت کا ایک سسٹم تیار کیا ہے جو کہ سی ٹی اسکین کی طرح کام کرتا ہے۔
‘گوگل’نے مئی 2021 میں اپنے بلاگ میں بتایا تھا کہ ’ڈرماٹولوجی اسسٹنٹ ٹول) ٹھیک ایسے ہی کام کرتا ہے، جیسے اب بریسٹ کینسر کی تشخیص کے لیے ٹیکنالوجی کی مدد سے اسکریننگ کی جاتی ہے۔
گوگل کے مطابق مذکورہ ٹول کی تیاری کے وقت مصنوعی ذہانت کے سسٹم کو 65 ہزار مختلف رنگوں، مسائل اور بیماریوں کی تصاویر دکھائی گئی تھیں۔
گوگل نے بتایا تھ اکہ مذکورہ ویب ایپلی کیشن کی طرز کے ٹول کے ذریعے کوئی بھی صارف اپنے موبائل کے کیمرے سے تصاویر کھینچ کر اپنے ساتھ ہونے والے مسئلے کی ممکنہ نوعیت معلوم کر سکے گا۔
گوگل نے واضح کیا تھا کہ مذکورہ ٹول بیماری کی تشخیص یا علاج کے لیے نہیں ہے بلکہ مذکورہ ٹول کو ابتدائی معلومات کے لیے بنایا جا رہا ہے، تاکہ کوئی بھی شخص اپنے ساتھ ہونے والے مسئلے کی نوعیت سے واقف ہوسکے۔
گوگل کے مطابق مذکورہ ٹول کے ذریعے آن لائن مصنوعی ذہانت کا سسٹم صارف کو تصاویر کے بعد ممکنہ طور پر 288 مسائل یا امراض میں سے ممکنہ امراض سے متعلق معلومات فراہم کرے گا۔
مصنوعی ذہانت کے سسٹم کی جانب سے ملتی جلتی بیماری کو منتخب کرنے کے بعد مذکورہ سسٹم صارف سے مزید سوالات کرکے علامات سے متعلق دریافت کرے گا۔
گوگل کے مطابق علامات سے متعلق سوالات و جوابات کرنے اور تصاویر کی روشنی میں مصنوعی ذہانت کا ٹول صارف کو چند ممکنہ بیماریوں یا مسائل کی فہرست فراہم کرکے معالج سے رابطہ کرنے کی ہدایت کرے گا۔
تاہم گوگل کے مذکورہ ٹول پر ماہرین جلد نے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مصنوعی ذہانت انسانی جلد کے رنگوں کو مکمل طور پر پہچاننے کی اہلیت نہیں رکھتا اور مذکورہ ٹول صرف گوری، بھوری یا سیاہ رنگت ہی پہنچان پائے گا جب کہ گوری رنگت کے بھی مختلف درجے ہوتے ہیں۔
ماہرین نے خدشات ظاہر کیے ہیں کہ مذکورہ مصنوعی ذہانت کے ٹول سے بیماری یا مسئلے کی معلومات حاصل کرنے والے افراد مزید پریشانی اور تذبذب کا شکار ہوں گے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹول کسی بھی طرح جلد، بالوں اور ناخن کے مسائل کو درست انداز میں نہیں پہچان پائے گا اور ممکنہ غلط تشخیص کے نتیجے میں لوگ پریشان ہوجائیں گے۔
خیال رہے کہ گوگل نے اگرچہ مذکورہ ٹول تیار کرلیا ہے، تاہم اسے تاحال عوام کے استعمال کے لیے فراہم نہیں کیا گیا، اسے حکومتوں اور صحت سے متعلق اداروں کی منظوری کے بعد ہی استعمال کے لیے عام کیا جائے گا۔
فوری طور پر گوگل کو امریکا سمیت دیگر ممالک نے مذکورہ ٹول استعمال کرنے کی منظوری نہیں دی ہے، تاہم یورپین یونین (ای یو) نے اسے محدود پیمانے پر استعمال کی اجازت دی ہے لیکن ساتھ ہی ٹول پر خدشات کا اظہار بھی کیا ہے۔
مذکورہ ٹول کو متعارف کرائے جانے کے بعد کوئی بھی شخص جلد کا کوئی مسئلہ ہونے کی صورت میں مذکورہ متاثرہ جسم کے حصے کی کم از کم تین مختلف تصاویر اپنے موبائل کیمرے سے نکال کر ٹول کو فراہم کرے گا اور ٹول ان تصاویر کا جائزہ لے کر ممکنہ مسائل یا بیماریوں کی نشاندہی کرے گا۔
گوگل کے مطابق مذکورہ ٹول کو بنانے کا خیال اس وقت آیا جب کہ دیکھا گیا کہ دنیا بھر لوگ گوگل سے سالانہ 10 ارب سوالات جلد، بالوں اور ناخن سے متعلق کرتے ہیں۔
یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ بعض بیوٹی و میک اپ کمپنیاں بھی اسی طرح کے ملتے جلتے مصنوعی ذہانت کے ٹول استعمال کرکے لوگوں کو خوبصورتی بڑھانے کے مشورے دیتی ہیں۔