مشال ارشد سی ایم انڈرگراونڈنیوز
پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے کہا ہے کہ پاکستان افغانستان میں طاقت کے زور پر اقتدار کے حصول کو تسلیم نہیں کرے گا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکہ کے دورے پر موجود معید یوسف نے واشنگٹن میں رپورٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کابل حکومت کو اب عسکری فتح کی کوشش نہیں کرنی چاہیے اور مستقبل میں کسی بھی مذاکرات میں وسیع تر حلقوں سے افغان نمائندوں کو شامل کیا جانا چاہیے۔
’زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے کچھ نہ کچھ سمجھوتہ تو (کرنا) ہو گا۔۔۔ تشدد کو روکنا ہو گا۔‘
اُنھوں نے طالبان پر پاکستان کے مبینہ اثر و رسوخ کے استعمال کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے پاس جو بھی محدود اثر و رسوخ تھا، ہم نے استعمال کر لیا ہے۔ اب (غیر ملکی) افواج کے انخلا کے بعد منطقی طور پر یہ اثر و رسوخ کم ہوا ہے۔‘
اُنھوں نے کہا کہ دنیا کو بھی یہ چیز سمجھنی چاہیے کہ سیاسی سمجھوتے میں امریکہ کا مفاد ہے۔
’سلامتی کونسل کا اجلاس کل‘
افغانستان میں طالبان حملوں میں شدت آنے اور متعدد اضلاع جنگجوؤں کے قبضے میں جانے کے بعد اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا خصوصی اجلاس جمعے (کل) کو منعقد ہو رہا ہے۔
یہ اجلاس انڈیا کی زیرِ صدارت ہو گا اور اقوامِ متحدہ میں انڈیا کے مستقل مندوب ٹی ایس تریمورتی اس کی سربراہی کریں گے۔
افغان حکومت نے دو دن قبل سلامتی کونسل سے افغانستان پر ہنگامی اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا تھا۔
افغان وزیر خارجہ محمد حنیف اتمر نے اپنے انڈین ہم منصب جے شنکر سے بات چیت میں اس اجلاس کو بلانے کی درخواست کی تھی۔
واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے افغانستان کے حالیہ واقعات پر جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا ہے کہ اقوام متحدہ افغانستان میں ’امارت اسلامی کی بحالی‘ کی حمایت نہیں کرتی۔
طالبان سنہ 1996 سے سنہ 2001 تک افغانستان میں اپنی حکومت کو ’اسلامی امارت‘ کا نام دیتے ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ سلامتی کونسل کے ارکان کو افغانستان میں طالبان کے بڑھتے ہوئے حملوں کے نتیجے میں بڑھتے ہوئے تشدد پر ’شدید تشویش‘ ہے اور وہ تشدد کے فوری خاتمے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
مختلف شہروں میں لڑائی جاری
دوسری جانب افغانستان کے مغربی شہر ہرات اور جنوبی شہروں ہلمند کے مرکز لشکرگاہ اور قندھار پر کنٹرول کے لیے طالبان اور افغان فورسز کے درمیان لڑائی گذشتہ ایک ہفتے سے جاری ہے جہاں افغان فورسز طالبان کے خلاف فضائی حملے جبکہ طالبان اُن کے خلاف راکٹ حملے کر رہے ہیں۔
انڈرگراونڈ نیوز کے نمائندے خدائے نور ناصر کے مطابق افغان فورسز نے لشکرگاہ میں طالبان کے خلاف سرچ آپریشن شروع کیا ہوا ہے اور شہریوں کو وہاں سے نکلنے کی ہدایات جاری کی ہیں۔
ہلمند کے مرکزی شہر لشکرگاہ میں عینی شاہدین کے مطابق طالبان اور افغان فورسز کے درمیان لڑائی بھی شہر کے مختلف حصوں میں جاری ہیں جہاں طالبان گورنر آفس اور پولیس ہیڈ کوارٹر کے قریب پہنچنے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔
حکام کے مطابق گذشتہ روز طالبان نے گورنر آفس اور پولیس ہیڈکوارٹر پر کنٹرول کے لیے بڑے حملے کیے لیکن فورسز نے یہ حملے پسپا کر دیے۔
حکومت نے طالبان پر الزام لگایا ہے کہ وہ شہریوں کے گھروں میں گھس کر زبردستی پناہ لیتے ہیں اور پھر وہاں سے فورسز پر حملے کرتے ہیں۔
افغان پارلیمان میں ہلمند کے نمائندے غلام ولی افغان نے مرکزی حکومت سے درخواست کی ہے کہ لشکرگاہ کو طالبان سے بچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔
’یہ ایک بہت بڑی بدبختی ہے، لوگ اپنا گھر بار چھوڑ کر چلے گئے ہیں، گھر اور مارکیٹیں مسمار ہوئی ہیں۔ ہم مرکزی حکومت سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ لشکرگاہ کے لیے مزید فورس بھیجے۔‘
افغان فورسز کی جانب سے لشکرگاہ کے اُن مقامات پر فضائی حملے بھی جاری ہیں جہاں پر طالبان کے ٹھکانے اور مورچے ہیں۔
ہلمند کے صدر مقام لشکرگاہ میں طالبان اور افغان فورسز کے درمیان لڑائی کو ایک ہفتہ ہونے کو ہے اور اب شہری اشیائے خورد و نوش کی قلت کا سامنا بھی کر رہے ہیں۔
لشکرگاہ کے ایک شہری نے بی بی سی پشتو ریڈیو کو بتایا کہ شہر میں ’شدید وحشت‘ ہے اور لوگ اپنے گھروں میں بھی محفوظ نہیں ہیں۔