مزمل حسین ایڈمنسٹریٹر آفیسر انڈرگراونڈ نیوز
امریکی صدر ٹرمپ سے جب عمران خان صاحب کی ملاقات ہوئی تو وہ اُس ملاقات پر اِس قدر پُرجوش ہو گئے کہ امریکہ میں جلسے سے خطاب کے دوران پاکستان کے اپوزیشن لیڈروں کی ایسی تیسی کرنے کا اعلان کر ڈالا۔ واپس آئے تو وزیروں اور مشیروں سے ایسا استقبال کروایا کہ جیسے وہ کشمیر فتح کرکے لوٹ رہے ہیں۔ خود بھی یہی فرمایا کہ مجھے تو یوں لگتا ہے کہ جیسے میں آج ورلڈ کپ جیت کر لوٹا ہوں لیکن کچھ عرصہ بعد پتہ چلا کہ ٹرمپ کی اصل میچ فکسنگ نریندر مودی سے ہوئی تھی جس کے نتیجے میں اس نے کشمیر ہڑپ کر لیا۔ یوں جس بات کا دو سال قبل ہم جشن منا رہے تھے، آج مظلوم کشمیریوں کے ساتھ مل کر ماتم کررہے ہیں۔
دوسرا معاملہ قطر معاہدہ کا تھا۔ امریکہ اور طالبان کے مابین قطر ڈیل ہوئی تو ہم جیسے طالب علم اسے امن معاہدے کی بجائے دو کرداروں کی ڈیل سے تعبیر کررہے تھے۔ جب امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات جاری تھے تو چیخ رہے تھے کہ امریکہ اور طالبان کی ڈیل سے پہلے بین الافغان مفاہمت ضروری ہے لیکن بین الافغان مفاہمت کے بغیر ہی عمران خان اور شاہ محمود قریشی شادیانے بجانے لگے کہ ہمارے تعاون سے یہ ڈیل ممکن ہوئی۔
لیکن پھر جب جون جولائی میں امریکی افواج کے انخلا کی تکمیل کا مرحلہ آیا اور بین الافغان مفاہمت کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے تھے تو یہ خدشات پیدا ہوئے کہ اب افغانستان میں خونریزی ہوگی جس کے نتیجے میں ایک طرف مزید مہاجرین پاکستان آئیں گے بلکہ امریکہ اور اس کے مغربی اتحادی سارا ملبہ پاکستان کے اوپر گرانے کی کوشش کریں گے تو پاکستان میں ایک بار پھر ماتم برپا ہوا۔
عمران خان اور ان کے ترجمان کہنے لگے کہ بےیقینی کی یہ ساری صورت حال امریکی افواج کے بےوقت اور غیرذمہ دارانہ انخلا کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔ گویا ایک سال قبل ہم امریکیوں کے انخلا پر آمادگی کا جشن منارہے تھے اور ایک سال بعد اس کا ماتم کررہے تھے تو دوسری طرف افغانستان سے متصل قبائلی اضلاع میں متوقع مہاجرین کے لئے کیمپ تعمیر کررہے تھے اور پاکستان کے اندر تحریک طالبان پاکستان کے دوبارہ متحرک ہونے کا خوف بھی لاحق تھا چنانچہ طالبان اور اشرف غنی کی حکومت کی مفاہمت کے لئے دن رات ایک کئے ہوئے تھے۔
لیکن اشرف غنی اور اُن کے حمداللہ محب جیسے مشیر مفاہمت کی ہر کوشش کو سبوتاژ کرتے رہے اور طالبان کا رویہ بھی بےلچک تھا۔ اِس دوران افغان فوج ایک کے بعد ایک ضلع چھوڑ کر طالبان کے حوالے کررہی تھی، اِس دوران پاکستان میں یہ سوچ فروغ پانے لگی کہ امریکہ اور طالبان کی در پردہ کوئی انڈر اسٹینڈنگ ہوئی ہے جس سے پاکستان میں تشویش مزید بڑھ گئی۔ دوسری طرف طالبان تیزی سے کابل کے گرد گھیرا تنگ کرنے لگے۔ اشرف غنی نہ صرف مطمئن دکھائی دے رہے تھے بلکہ اپنی فوج کے ذریعے طالبان کو بھرپور مزاحمت کی دھمکیاں بھی دے رہے تھے۔
وہ یہ بڑھکیں اِس اعتماد کے ساتھ مار رہے تھے کہ عوامی نیشنل پارٹی کے ایمل ولی خان جیسے رہنما ہم جیسے لوگوں کو پاگل قرار دینے لگے جو انہیں یہ سمجھانے کی کوشش کررہے تھے کہ جنگ ہارنے والے متنازعہ ترین صدر اشرف غنی کی حمایت ان کے لئے سود مند نہیں۔ اشرف غنی اور امریکیوں کے اعتماد کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ طالبان نے امریکیوں کو یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ چھ ماہ تک کابل پر قبضہ نہیں کریں گے لیکن اس دوران یکدم حالات نے پلٹا کھایا اور کابل کے ارد گرد کے صوبے طالبان کے قبضے میں آنے لگے۔ کابل کے دروازے پر کھڑے ہوکر طالبان نے (شاید امریکہ کے ساتھ اِس انڈر اسٹینڈنگ کی وجہ سے) اعلان کیا کہ وہ کابل میں داخل نہیں ہوں گے لیکن اگلے روز ایک تو وہ کابل میں داخل ہو گئے۔
دوسری طرف کابل پر قبضے کے بعد طالبان نے ماضی کے بالکل برعکس اپنے مخالفین کو قتل کرنے کی بجائے اشرف غنی سمیت سب شہریوں کے لئے عام معافی کا اعلان کردیا۔ اسی طرح انہوں نے خواتین سے متعلق بھی ماضی کے برعکس رویہ اپنایا۔ تیسری طرف جب امریکی اپنے سفارتخانے کے عملے اور افغان ترجمانوں کو جہازوں کے ذریعے نکال رہے تھے تو اِس دوران وہاں جمع ہونے والے ہزاروں نوجوانوں کی فوٹیجز اور پھر جہاز سے گرنے والے تین جوانوں کی ہلاکت نے فضا کو یکسر بدل دیا۔ افغانستان کے اندر امریکہ اور اشرف غنی نفرت کا نشانہ بننے لگے اور گزشتہ 20سال میں یہ پہلی مرتبہ ہوا کہ افغانوں کے غصے کا نشانہ امریکہ اور اشرف غنی بن گئے۔
دوسری طرف امریکہ میں میڈیا، سول سوسائٹی اور سیاستدانوں نے جوبائیڈن کو آڑے ہاتھوں لیا اور شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہیں افغانستان میں طالبان کی واپسی کا ذمہ دار قرار دیا۔ چنانچہ جوبائیڈن کو قوم سے خطاب کرنا پڑا جس میں انہوں نے پاکستان کا تو ذکر تک نہیں کیا لیکن اشرف غنی اور ان کے ساتھی افغان سیاستدانوں کو آڑے ہاتھوں لیا۔ اب ایک طرف تو افغانستان میں وہ طالبان جن کی مدد کا پاکستان پر الزام لگتا رہا، بدلے ہوئے نظر آئے۔ دوسری طرف پہلی مرتبہ پاکستان کی بجائے اشرف غنی اور امریکہ نفرت کا نشانہ بننے لگے اور تیسری طرف امریکہ نے پاکستان کی بجائے اشرف غنی کو افغانستان میں حالات کی خرابی کا ذمہ دار قرار دیا۔ اس لئے پاکستان میں ایک بار پھر وزیراعظم، وزرا صاحبان، مذہبی جماعتیں، ٹی وی اینکرز اور دانشور جشن منانے لگے۔
اب ہم جیسے طالب علم التجائیں کر رہے ہیں کہ جشن منانے کی ضرورت ہے اور نہ ماتم کرنے کا کوئی جواز لیکن پختون قوم پرست سوگ میں ہیں جبکہ باقی لوگ جشن منانے سے باز نہیں آرہے حالانکہ ابھی صورت حال واضح نہیں۔ بہتری کے بھی امکانات ہیں اور تباہی کا بھی خطرہ ہے۔ زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ کچھ عرصہ بعد ہم ماتم کررہے ہوں گے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ سردست تو طالبان نے مخالف سیاسی عناصر کے ساتھ مل کر مشترکہ نظام بنانے کی بات کی ہے لیکن جب انہوں نے اپنی امارات اسلامی بحال کی تو اب اس میں شمالی افغانستان کے رہنماؤں کی شمولیت کا امکان بہت کم نظر آتا ہے جب وہ دیگر افغان دھڑوں کو جمہوری طریقے سے ساتھ لے کر چلنے پر آمادہ نہیں ہوں گے تو اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ مغربی ممالک ان کی حکومت کو تسلیم کر لیں۔
اب اگر مغربی ممالک کے بغیر پاکستان طالبان کی حکومت کو تسلیم کرے گا تو ایک بار پھر پاکستان مغربی ممالک کے غصے کا نشانہ بنے گا۔ اب ایسے عالم میں جبکہ عمران خان کی حکومت نے اپنی معیشت آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے منسلک کر دی ہے اور دوسری طرف ایف اے ٹی ایف کی تلوار لٹک رہی ہے تو جب امریکہ اور اس کے اتحادی پاکستان پر غصہ اتاریں گے تو اندازہ لگا لیجئے کہ پاکستان کی کیا حالت ہوگی۔ اللّٰہ کرے میرا اندازہ غلط ثابت ہو لیکن مجھے تو لگتا ہے کہ کسی بھی وقت طالبان کی کامیابی پاکستان کے لئے وبالِ جان بھی بن سکتی ہے۔