مشال ارشد سی ایم انڈر گراؤنڈ نیوز
انسان ارتقائی طور پر میٹھی غذاؤں جیسے پھل اور شہد کو ترجیح دیتے آئے ہیں کیونکہ یہ خوراک زمانہ قدیم سے توانائی کے حصول ذریعہ ثابت ہوئی ہے۔
مگر موجودہ عہد میں میٹھی غذائیں بہت سستی ہوگئی ہیں اور آسانی سے دستیاب ہیں، یہی وجہ ہے کہ غذاؤں اور مشروبات میں لوگ بہت زیادہ چینی جسم کا حصہ بنارہے ہیں۔
مگر یہ قدرتی نہیں بلکہ انسان کی تیار کردہ پراڈکٹ ہے اور اس کا بہت زیادہ استعمال صحت کے لیے نقصان دہ ہے، کیونکہ یہ موٹاپے، ذیابیطس ٹائپ 2 کا شکار بنانے کے ساتھ ساتھ دانتوں کے لیے تباہ کن ہے۔
چینی کے استعمال سے صحت کو ہونے والے نقصانات کے خدشات کے باعث سویٹنرز کو بھی تیار کیا جارہا ہے۔
ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ غذاؤں اور مشروبات میں چینی اور سویٹنر کا استعمال ایک دہائی میں بہت زیادہ بڑھ گیا ہے بالخصوص متوسط آمدنی والے ممالک میں۔
تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں سویٹنر کا استعمال 36 فیصد جبکہ چینی سے تیار غذاؤں کا استعمال 9 فیصد بڑھ گیا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق ایک بالغ مرد کو دن بھر میں 9 چمچ سے کم چینی کا استعمال کرنا چاہیے جبکہ خواتین کے لیے یہ مقدار 6 چمچ سے کم ہے۔
مگر دنیا بھر میں لوگ اس سے کافی زیادہ مقدار روزانہ کی بنیاد پر جزوبدن بناتے ہیں۔
تو نقصان کیا ہے؟
اگرچہ چینی کے بہت زیادہ استعمال کے نقصانات کا علم تو بیشتر افراد کو ہے مگر سویٹنر جیسے مصنوعی میٹھے کا استعمال بھی حل نہیں۔
حالیہ تحقیقی رپورٹس میں عندیہ دیا گیا ہے کہ مصنوعی مٹھاس کے استعمال سے بھی ذیابیطس ٹائپ 2 اور امراض قلب کا خطرہ بڑھتا ہے جبکہ معدے میں موجود بیکٹریا پر اثرانداز ہوتا ہے۔
چونکہ یہ بھی میٹھا ہی ہے تو اس کے استعمال سے بھی زیادہ میٹھا کھانے کی خواہش بڑھتی ہے۔
مٹھاس کی یہ قسم الٹرا پراسیس غذاؤں میں پائی جاتی ہے اور اس طرح کی غذاؤں کا زیادہ استعمال امراض قلب، ذیابیطس ٹائپ 2، کینسر اور موت کا خطرہ بڑھاتا ہے۔