Reg: 12841587     

دوسری شادی سوچ سمجھ کر کریں ۔۔

مشال ارشد سی ایم انڈر گراؤنڈ نیوز

شیخ نوازش علی بالائی منزل کے کمرے کی کھڑکی کے پاس بیٹھے اپنے دوست سے خوش گپیوں میں مشغول تھے ، جہاں سے گھر کے بیرونی گیت کی طرف جاتا راستہ صاف دکھائی دیتا تھا۔

نوازش علی نے اُس راستے کے اطراف پر پھولوں کے پودے لگارکھے تھے ،جن کی خوبصورتی اپنے جوبن پر تھی،لیکن اس بہار کے عین وسط میں کھڑی شیخ صاحب کی زوجین ایک دوسری کو “بے مثال کلمات”سنارہی تھیں۔ کھڑکی کھلی ہونے کی وجہ سے یہ کلمات شیخ صاحب کے کانوں تک رسائی حاصل کر رہے تھے۔ انہوں نے اپنی بیگمات کو ایک گھر مگر الگ الگ پورشنز میں رکھا ہوا تھا۔ پھر بھی جب کبھی ان کا ٹاکرا ہوتا تو خوب ہوتا اب اگلہ مرحلہ دونوں شیخ صاحب کے پاس شیکایت لے کر آنا تھا۔ اس لیے وہ دونوں کے آنے سے پہلے ہی گھر سے نکل جانا چاہتے تھے۔

انہوں نے حواس باخنگی میں جلدی سے گاڑی کی چابی پکڑی اور کمرے سے نکلنے لگے۔ مخلص دوست نے آگے بڑھ کر چابی ان کے ہاتھ سے پکڑی اور کہا،”شیخ صاحب!آپ کی گاڑی گیراج میں کھڑی ہے ،وہاں جائیں گے تو بیگمات کی بمباری کی زد میں آنے کا خدشہ ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ ان کے منہ سے نکلا کوئی گولا آپ کی شہادت کا باعث بن جائے اور میں اپنے پیارے دوست سے محروم ہو جائوں ۔ لہذا یہ میری گاڑی کی چابی پکڑیں، جو گھر کے پچھلی طرف کھڑی ہے۔ آپ پچھلے دروازے سے نکلیں ۔میں آپ کی گاڑی لے کر مین گیٹ سے نکلتا ہوں ۔” شیخ صاحب مشکور نظروں سے عزیز دوست کو دیکھتے ہوئے کمرے سے نکل گئے ۔

بیچارے شیخ صاحب نے دوسری شادی بڑے چائو س ےکی تھی لیکن انسان کا براوقت کب پوچھ کر آتا ہے ۔ دوسری بیوی پہلی بیوی سے بھی چار ہاتھ آگے نکلی۔ کہتے ہیں کہ گیدڑ کا براوقت آتا ہے تو جنگل سے شہر کا رخ کر لیتا ہے ۔ اسی طرح مرد اپنے پائوں پر کہلاڑی مارتے ہوئے دوسری شادی کی طرف رخ کرلیتا ہے۔ دوسری شادی ایک ایسا لڈو ہے جسے کھانے کی حسرت ہر مرد کے دل میں ہوتی ہے۔ اکثر بیچارے تو اس حسرت کو دل کے تہہ خانوں میں ہی چھپائے رکھتے ہیں اور کچھ ببانگ دہل اس کارخیر کو سرانجام دیتے ہیں ۔ پھر چاہے یہ شادی خانہ بربادی کی ہی تصویر بنی رہی ۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جس مرد کی دوسری شادی ہوجائے، اس کی ماں کبھی نہیں مرتی۔ پوچھنے والوں نے پوچھا وہ کیسے؟کہا جب وہ ایک بیوی کے گھر میں جاتا ہے تو دوسری کہتی ہے ،’آگیا اس ماں کے گھر سے “اور جب دو دوسری کی طرف جاتا ہے تو وہاں سے بھی یہی جملہ سننے کو ملتا ہے ، جس کی وجہ سے دونوں گھر اس کی ماں کے بن جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں کچھ، ایک شادی والے مردوں کی خوش فہمی ہے کہ دو بیویوں والوں کی خدمت خوب ہوتی ہے، دونوں بیگمات اپنے نبمر بنانے کیلئے ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر شوہر کی خدمت کرنے کی کوشش کرتی ہیں ، لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اب زایدہ خدمت والا فلسفہ بھی پرانا ہوچکا ہے ۔ اب تو جدید دور کی جدید بیویوں ، اتنی’خدمت ‘کرتی ہیں کہ نہ صرف شوہروں کے سر سے بال اڑ جاتے ہیں بلکہ انہیں نقدی کا بوجھ بھی نہیں اٹھانے دیتیں۔ ایک اگر ہزار روپے خرچ کرتی ہے تو دوسری اگلے لمحے دوہزار کا شوہر کو ٹیکہ لگا کر سکون کا سانس لیتی ہے۔ پھر اس مسکین شوہر کو زیادہ تر آمدن ان سے چھپا کر رکنی پڑتی ہےاور ان کے سامنے اپنی تنگدستی کا رونا روتے کیلئے الفاظ بھی ذہن نشین کرنے پڑتے ہیں ۔ اگ رکوئی دو بیویاں رکھنے والا آدمی مردوں کی محفل میں بیٹھ کر نہ صرف دوسری شادی کے فوائد بتا رہا ہو بلکہ انہیں دوسری شادی کرنے کی ترغیب دے رہا ہو تو سمجھ لیں کہ وہ بیچارہ اپنے گھر میں جی بھر کر دکھ ہے اور اب انتقاماََ دوسروں کو اس بھٹی میں جھونکنا چاہتا ہے ۔بعض شوہروں کی بیگمات اتنی جابر ہوتی ہیں کہ ان بیچاروں کی حسرت ہی رہتی ہے کہ یہ کبھی تو اکٹھی مل بیٹھ کر تھوڑی بہت گپشپ لگا لیں کیونکہ حقیقت حال میں ان کی بیگمات غصے کی بندوق پکڑ کر ٹریگر پر ہاتھ رکھے بیٹھی ہوتی ہیں۔ کہ اگر کبھی آمنا سامنا ہوا تو یک لخت ایک دوسرے کو اڑا دیں ۔ کچھ حضرات اس معاملے میں اتنے جینیئس ہوتے ہیں کہ اندر لے کھاتے بے شک بیگمات کے سامنے ہاتھ جوڑ کر انہیں باہر سب اچھا دکھانے کی منتیں کریں لیکن باہر آکر پر اعتماد انداز میں دعویٰ کرتے ہیں کہ انکی بیگمات کے درمیان مثالی محبت ہے۔ پھر چاہے آپس میں منہ بسور کر دور دور ہی کیوں نہ بیٹھی ہوں ، لیکن کسی کی اپنے گھر میں آمد پر دکھاوے کے طور پر ایسے جڑ کر بیٹھ جائیں گی۔ جیسے یہ بیچاریاں پیدا ہی جڑواں ہوئی ہوں۔

مردوں کے دوسری شادی کروانے کے بھی اپنے اپنے اندازہیں۔ کچھ دھوم دھڑجے سے مگر زیادہ تر بے چارے لُل چھپ کر ہی کرواتے ہیں ۔ چند سالپہلے کی بات ہے کہ ہمارے گھر سے چھٹے گھر میں رہنے والے زبیر صاحب نے کسی بہانے گھر سے ایک ہفتے کی چھٹی لی اور یار بیلیوں کے ساتھ بارات لے کر دوسری شادی رچانے چلے گئے۔ یہ ایک ایسا سفر تھا، جس کا ثواب موصوف آج تک خوب کمارہے ہیں اور ڈھول کی طرح پٹ رہے ہیں۔ اب ہمیں ان کی حالت زار دیکھ کر دکھ تو ہوگانا، ہم مرودوں کی ایک سے زایدہ شادی کے مخالف نہیں۔ کروائیں ضرور کروائیں ، مگر اپنی ہڈی پسلی دیکھ کر ۔ بھئی! جنہوں نے کھائی گاجریں ، ان کے پیٹ میں درد۔۔۔۔ ہمیں اس سے کیا؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Previous Post

’اگست میں گولڈ میڈل، یہ ضروری تھا‘، اداکاروں کی نوح بٹ کو مبارکباد

Next Post

راجہ علی اصغر کے اعزاز میں راجہ عابد جمیل نے اپنی رہائش گاہ پر استقبالیہ دیا

Related Posts
Total
0
Share