.مصباح لطیف(اے ای انڈرگرائونڈ نیوز)
کینیا کی سرکاری تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی صحافی ارشد شریف کا قتل غلط شناخت کا معاملہ تھا اور اس میں قتل کی کوئی منصوبہ بندی شامل نہیں تھی اور نہ ہی تشدد کیا گیا۔
قابل اعتماد سرکاری ذرائع کے مطابق کینین حکام کی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ارشد شریف کے قتل کی منصوبہ بندی کے شواہد نہیں ملے، نہ ہی ارشد شریف پر قتل سے پہلے یا بعد میں تشدد کیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق خرم احمدکی گاڑی روڈ بلاک پر نہ رکنے پرپیرا ملٹری جنرل سروس نے فائرنگ کی، پیرا ملٹری جنرل سروس کے 4 ارکان نے اندھا دھند فائرنگ کی۔
کینین حکام کی رپورٹ میں پولیس کی طرف سےبیان کردہ مؤقف ہی بیان کیا گیا ہے۔
ذرائع کا دعویٰ ہے کہ گولیاں چلانے والے جی ایس یو کے افسران نشے میں نہیں تھے جب کہ کینین پولیس نے ابتدائی رپورٹ میں کہا تھاکہ واقعے میں ملوث چاروں افسران نے حد سے زائد شراب پی رکھی تھی۔
کینین حکام کی رپورٹ کے مطابق ارشد شریف کی گاڑی سے کوئی فائر نہیں ہوا، ایک افسر اپنے ہی ساتھی کی گولی لگنے سے زخمی ہوا تھا، گاڑی کے ڈرائیور اور خرم احمد نے ارشد شریف کو زخمی حالت میں وقار احمدکےفارم پرپہنچایا۔
کینین حکام کی رپورٹ میں لاپرواہی سے فائرنگ کرنے والے دو افسران کے خلاف کارروائی کی سفارش کی گئی ہے، اختیارات کے بے جا استعمال پر افسران کو عمر قید کی سزا ہوسکتی ہے جب کہ واقعے میں ملوث افسران پر فرد جرم یا مقدمہ چلانے کا ابھی فیصلہ نہیں کیا گیا۔
ذرائع کے مطابق واقعے کو 5 ماہ گزرنےکے باوجود کینیا کی حکومت یا آئی پی او اے نے رپورٹس جاری نہیں کیں،کینیا کی حکومت نے اپنی تحقیقات دو ماہ قبل مکمل کرلی تھیں۔
2 پاکستانی افسران عمر شاہد حامد اور اطہر وحید اپنی رپورٹ میں قتل کو منصوبہ بندی کا نتیجہ قرار دے چکے ہیں، پاکستانی افسران کی رپورٹ میں ایسےکرداروں کی نشاندہی بھی کی گئی تھی جو قتل میں ملوث ہوسکتےہیں۔
پاکستانی افسران کی رپورٹ میں کینیا کی پولیس پر قتل کے جرم کے پردہ پوشی کرنےکا الزام بھی لگایا گیا تھا جب کہ کینیا کی انسانی حقوق کمیشن کا بھی خیال ہےکہ پولیس ارشد شریف کے قتل میں ملوث ہوسکتی ہے۔
ادھر اسلام آباد پولیس نے ارشد شریف کے قتل کا الزام کینیا میں ان کے میزبانوں وقار اور خرم احمد پرلگای اتھا جب کہ وقار اور خرم اپنے وکیل کے ذریعے قتل میں ملوث ہونے کے الزام سے انکار کرچکے ہیں۔