(مصبا ح لطیف اے ای انڈرگرائونڈ نیوز)
اسلام آباد: چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے یا نہ چلانے کے حوالے سے تاحال کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔
باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ اگرچہ کچھ وفاقی وزیر کا کہنا ہے کہ 9 مئی کے حملوں کے مبینہ ماسٹر مائنڈ ہونے کے حوالے سے عمران خان ملٹری ٹرائل کیلئے موزوں کیس ہیں لیکن اس سلسلے میں اب تک کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔
سول اور ملٹری حکام کے درمیان ایک عمومی اتفاق ہے کہ عمران خان 9 مئی کے حملوں کے مبینہ ماسٹر مائنڈ تھے۔ سویلین فریقین بشمول وزیر اعظم شہباز شریف اور کچھ وفاقی وزرا پہلے ہی کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ عمران خان 9 مئی کے واقعات کے اہم منصوبہ ساز تھے۔
تاہم ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے اب تک عمران خان سمیت کسی کا نام نہیں لیا لیکن ان کی طرف سے آنے والے بالواسطہ اشاروں سے اسی بات کا عندیہ ملتا ہے جو سویلین حکام کھل کر کہتے رہے ہیں۔
پولیس کی جانب سے جمع کیے گئے شواہد اور آتش زنی میں ملوث گرفتار شدگان کے بیانات کی روشنی میں اب عمران خان کے خلاف 9 مئی کے حملوں کے سلسلے میں پرچے کاٹے جا رہے ہیں۔ کم از کم 6؍ ایف آئی آرز میں عمران خان کو نامزد کیا گیا ہے اور انہیں راولپنڈی، گوجرانوالہ، میانوالی کے مختلف تھانوں میں درج ایف آئی آر میں نامزد کیا گیا ہے، توقع ہے کہ ان کا نام مزید ایف آئی آر میں شامل کیا جا سکتا ہے۔
ذرائع سے جب یہ پوچھا گیا کہ کیا عمران خان پر آرمی ایکٹ کے تحت مقدمہ چلایا جائے گا یا نہیں تو ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر اب تک کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔
وفاقی حکومت کی جانب سے حال ہی میں سپریم کورٹ کو فراہم کی گئی معلومات کے مطابق 9 مئی کو ہونے والے تشدد کے تناظر میں ملک بھر سے گرفتار کیے گئے کل 102 شہری آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل کیلئے فوجی حکام کے پاس ہیں، ان 102 مشتبہ افراد میں خواتین یا بچے شامل نہیں۔
کچھ روز قبل میڈیا کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ آرمی ایکٹ کے تحت کسی خاتون یا 18 سال سے کم عمر کے فرد پر مقدمہ نہیں چلایا جائے گا، آرمی ایکٹ کے تحت ان تمام لوگوں کو فوج کے سپرد کر دیا گیا ہے۔
اگر عمران خان کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت مقدمہ چلانے کا فیصلہ ہوا تو انہیں بھی فوج کے حوالے کر دیا جائے گا۔
ایک حالیہ انٹرویو میں عمران خان نے کہا تھا کہ وہ کسی وکیل کی مدد کے بغیر بھی فوجی ٹرائل کا سامنا کرنے کو تیار ہیں۔