(مصبا ح لطیف اے ای انڈرگرائونڈ نیوز)
اسلام آباد: جس وقت ملک رواں سال متوقع طور پر نومبر میں ہونے والے آئندہ عام انتخابات کی تیاریاں کر رہا ہے، چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کیخلاف کرپشن اور فوجداری نوعیت کے کچھ اہم مقدمات پختہ ہوتے جا رہے ہیں۔
عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی سمیت دیگر افراد کیخلاف توشہ خانہ اور القادر ٹرسٹ (190؍ ملین پاؤنڈز) کے دو بڑے کرپشن کیسز حتمی مرحلے میں ہیں اور توقع ہے کہ ان معاملات میں ریفرنسز آئندہ ماہ احتساب عدالت میں دائر کر دیے جائیں گے۔
نیب ذرائع کا کہنا ہے ان کیسز میں ریفرنس دائر کرنے کیلئے کافی مواد موجود ہے۔ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ایک ماہ کے عرصہ میں نیب ان کیسز کو ٹرائل کیلئے بھیج سکتا ہے۔ تاحال نیب عمران خان کی جانب سے جمع کرائے جانے والے جوابات سے مطمئن نہیں ہیں۔
عمران خان اپنی اہلیہ کے ہمراہ نیب کی تحقیقات میں شامل ہو رہے ہیں۔ جب یہ سوال کیا گیا کہ کیا عمران خان کو نیب ان کیسز میں گرفتار کر سکتا ہے تو ذرائع کا کہنا تھا کہ چونکہ عمران خان نے تحقیقات میں تعاون کیا ہے لہٰذا چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔
اسی دوران، الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے اسلام آباد کی ضلعی عدالت میں عمران خان کیخلاف دائر کیے گئے توشہ خانہ ریفرنس میں بھی پیشرفت ہورہی ہے حالانکہ پی ٹی آئی چیئرمین نے متعدد مرتبہ کارروائی میں تاخیر کیلئے کوششیں کیں۔
کیس کی سماعت کرنے والی ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ عمران خان کیخلاف روزانہ کی بنیاد پر سماعت کی خواہاں ہے۔ سیشن کورٹ کی جانب سے موجودہ جج کو سماعت کی اجازت نہ دینے کی درخواست بھی مسترد کردی ہے۔ سیشن کورٹ نے 20؍ جولائی کو عمران خان کو طلب بھی کیا ہے۔
یہ مقدمہ الیکشن کمیشن کے دائر کردہ ریفرنس پر مبنی ہے۔ کمیشن نے اپنی مکمل انکوائری کے بعد الزام لگایا تھا کہ عمران خان نے بطور وزیر اعظم اپنے دور میں توشہ خانہ سے اپنے پاس رکھے تحائف کی تفصیلات ’’جان بوجھ کر چھپائی‘‘ تھیں۔ 21 اکتوبر 2022 کو الیکشن کمیشن نے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ سابق وزیر اعظم نے تحائف کے حوالے سے ’’جھوٹے بیانات اور غلط معلومات‘‘ فراہم کی تھیں۔
عمران خان پر پہلے ہی 10 مئی کو اس کیس میں فرد جرم عائد کی جاچکی ہے اور اس وقت نیب کی حراست میں تھے۔ منگل کو اسلام آباد کی سول کورٹ نے سابق وزیراعظم عمران خان اور بشریٰ بی بی کی ’’غیر قانونی‘‘ شادی کے خلاف کیس کو بھی قابل سماعت قرار دے دیا۔
ایک روز قبل محفوظ کیا گیا فیصلہ سناتے ہوئے سول جج قدرت اللہ نے عمران خان اور ان کی اہلیہ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 20 جولائی کو طلب کیا ہے۔ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اسلام آباد محمد اعظم خان نے گزشتہ ہفتے کیس کو سول جج کو بھیج دیا تھا اور ایک اور سول عدالت کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے شادی کی قانونی حیثیت کو چیلنج کرنے والی درخواست کو ناقابل سماعت قرار دیا تھا۔
درخواست گزار محمد حنیف نے دعویٰ کیا تھا کہ بشریٰ بی بی کو ان کے سابق شوہر نے نومبر 2017 میں طلاق دی تھی اور یکم جنوری 2018 کو انہوں نے عمران خان سے شادی کی۔ حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ بشریٰ بی بی کی عدت ختم نہیں ہوئی، ’’جو کہ شرعی اور مسلم اصولوں کیخلاف اقدام ہے۔‘‘
اسی کیس میں عمران خان کی بشریٰ بی بی سے شادی کے نکاح خواں مفتی سعید اور عمران خان کی جانب سے اہم گواہ عون چوہدری پہلے ہی عدالت میں اپنے بیانات ریکارڈ کرا چکے ہیں اور درخواست گزار کے موقف کی تائید کر چکے ہیں۔
9 مئی کے مقدمات میں، اگرچہ عمران خان کو متعدد ایف آئی آرز میں نامزد کیا گیا ہے، لیکن ابھی تک یہ طے نہیں ہوا ہے کہ ان پر مقدمہ کب چلایا جائے گا اور یہ کہ مقدمہ فوجی عدالتوں میں چلے گا یا سویلین عدالتوں میں۔ ایک ذریعے کے مطابق ابھی فیصلہ نہیں ہوا ہے لیکن توقع ہے کہ عمران خان پر انسداد دہشت گردی قوانین کے تحت عام عدالتوں میں مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔
9 مئی کے مقدمات میں عمران خان کے ٹرائل کے وقت کا کوئی علم نہیں ہے۔ عمران خان کی مبینہ بیٹی ٹیرین وائٹ کا ایک اور اہم کیس اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیرسماعت ہے۔