مصبا ح لطیف (اے ای انڈرگرائونڈ نیوز)
اسلام آباد ہائیکورٹ نے چیف کمشنر کو اسلام آباد کے لیے صوبائی حکومت کے اختیارات دینے والے تمام صدارتی آرڈر اور نوٹیفکیشن کالعدم قرار دے دیے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے شہریار آفریدی اور شاندانہ گلزار سمیت دیگر کی ایم پی او کے تحت نظربندی کے خلاف درخواستوں پر حکم نامہ جاری کرتے ہوئے وفاقی حکومت کو اسلام آباد کی حدود میں صوبائی اختیارات کے لیے 3 ماہ میں قانون سازی کا حکم دیا اور کہا کہ رولز آف بزنس کی تشکیل کے دوران اسلام آباد میں صوبائی حکومت کے اختیارات کا استعمال صرف وفاقی کابینہ کر سکے گی۔
جسٹس بابر ستار کی جانب سے جاری 82 صفحات پر مشتمل حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ایم پی او کا سیکشن 2 اور 3 آئین کے آرٹیکل 10 اور 10 کی صریحاً خلاف ورزی ہے، وفاقی حکومت آئین کے تحت اسلام آباد پر لاگو ہونے والے وفاقی اور صوبائی قوانین کے حوالے سے انفرادی اختیارات رکھتی ہے، اسلام آباد کے لیے وفاقی حکومت ہی وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتوں کا کردار ادا کرتی ہے، اسلام آباد میں قانون کے تحت کسی بھی فیصلے یا اختیارات کا استعمال وفاقی کابینہ کے اشتراک سے ہی کیا جا سکتا ہے۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ چیف کمشنر کو اسلام آباد کیلئے صوبائی حکومت کے اختیارات دینے والے تمام صدارتی آرڈر اور نوٹیفکیشن کالعدم قرار دیئے جاتے ہیں، 1980 کا صدارتی آرڈر 18 ضیاء الحق کی جانب سے جاری کیا گیا تھا، ضیاء الحق نے 1977 میں آئین پامال کرتے ہوئے مارشل لاء لگایا اور ریاست کے اختیارات پر قبضہ کر لیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کمشنر اسلام آباد نے مئی میں پی ٹی آئی کے خلاف درجنوں تھری ایم پی او آرڈرز کیے، اسلام آباد میں قانون کے تحت کسی بھی فیصلے یا اختیارات کا استعمال وفاقی کابینہ کے اشتراک سے ہی کیا جاسکتا ہے، چیف کمشنر اسلام آباد وفاقی دارالحکومت کی صوبائی حکومت نہیں ہے، چیف کمشنر اسلام آباد گریڈ 20 کا لا افسر اور اسلام آباد کی حد تک صوبائی حکومت تصور کیا جاتا ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کا یہ فیصلہ مستقبل میں لاگو ہو گا اور اس کا اطلاق ماضی کے اقدامات پر بھی ہو گا۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ چیلنج کیےگئے تمام نظربندی کے احکامات دائرہ اختیار نہ ہونے کی بنیاد پر کالعدم قراردیئے جاتے ہیں، چیف کمشنر کا ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو 3 ایم پی او کے اختیارات کی تفویض سے متعلق 10 مئی 1992 کا نوٹیفکیشن بھی کالعدم قرار دیا جاتا ہے، نظر بندی کے حکم کی درخواست کو قبول یا مسترد کرنے کا فیصلہ صوبائی حکومت کے اطمینان پر مبنی ہوتا ہے، کسی شخص کی نظربندی کی درخواست کو قبول یا مسترد کرنے کا اختیار کسی ایک شخص کو منتقل نہیں کیا جاسکتا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ایم پی او کے سیکشن 3، 2 میں کسی بھی شخص کو امن و امان کونقصان پہنچانےکے خدشے کی بنیاد پر گرفتار کرنے کا ذکر ہے، ایک شخص کو محض اس شک پر گرفتار کرنا کہ وہ مستقبل میں نقص امن کا خطرہ پیدا کرے گا آئین کے بر خلاف ہے، ناکافی مواد کی موجودگی میں کسی شخص کی گرفتاری کے احکامات جاری کرنا اختیارات کے ناجائز استعمال کے زمرے میں آتا ہے، ڈپٹی کمشنر کی جانب سے جاری نظر بندی احکامات کے خلاف 5 درخواستیں منظور جبکہ ایک درخواست نمٹائی جاتی ہے۔