کالم نگار مصنف
ادارہ میمونہ ویلفيئر ٹرسٹ کراچی*
بانی و مہتمم
مفتی خلیل الرحمن
حکومت وقت خوشنصیب ہے فوج عدلیہ حکمران پہلی دفھہ ایک پیج اور پلیٹ فارم پر ہیں
عمران خان سچا کھرا لائق اور ایماندار وزیر اعظم ہے لیکن پھر بھی افسوس نیچے رشوت کے ریٹ دگنے ہو چکے ہیں سابقہ حکمرانوں کی مثالیں کرپشن منی لانڈرنگ اقامے قبضے سرکاری وسائل کی لوٹ مار ناجائز دولت کے انبار بےنامی کھاتے پانامہ وغيرہ ملک کے بچے بچے کے علم میں ہیں یہ نالائق کرپٹ تو تھے ہی بدقسمتی سے یہ انتہائی بیوقوف اپوزیشن بھی ثابت ہوئے ہیں عدلیہ فوج کی حمایت کیساتھ ساتھ موجودہ حکومت کی یہ تیسری خوش نصیبی کہ انہیں ایک احمق ,نالائق اور جذباتی پن میں مبتلا ,انتہائی جلدباز اپوزیشن بھی نصیب ہوئی جو غلط غلیظ نعروں کیساتھ اداروں کے خلاف انتہائی نازیبا سلوک لے کر میدان میں اتری اور مایوس واپس لوٹ گئی اسمبلیوں سے تنخواہیں واجبات بھی گن گن کر جیبوں میں ڈالنے والے استعفے بھی دینے نکلے پھر حوصلہ نہ بنا اسی تنخواہ پر واپس انہی کرسیوں پر بیٹھ گئے ملک قوم سلطنت کو نقصانات پہچایا بلاوجہ کی مراعات ذیلی طبقات سے اپنے لفافے وصول کرنے والے
ہر نعرہ ہر اعلان جلدی واپس لے کر اپنی رہی سہی ساکھ بھی گنوا بیٹھے جب قول و فھل میں تضاد ہو جب سچ پر جھوٹ کی غلیظ چادر ڈالنے کی کوشش کی جائے تو یہ پردہ زیادہ دیر نہیں رہ سکتا اپنی اپنی سیاسی پارٹی کو مضبوط کرنے اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے اپنا سیاسی تشخص برقرار رکھنے کی بجائے سارا کچرا ایک ٹبے میں ڈال کر بڑی سیاسی جماعتیں بڑے لیڈر بھی عوام میں اپنی حثیت گنوا بیٹھے جمہوریت کا نام اسلام کا نام صرف اقتدار کیلئے استعمال کرنے کی پرانی گولی اب اثر نہیں کر رہی دنیا بدل گئی سیاست اور سوچ بدل گئی لیکن یہ پرانی مٹی کے مادھو ابھی بھی غلط فہمی کا شکار ہیں
اس ساری صورتحال کا فائدہ موجودہ حکومت کو مل گیا ایک اکیلا وزیر اعظم اور چند محنتی وزرا تو ایک بہتر سمت میں محنت اور لگن سے مصروف ہیں
ملک کو قرضوں میں ڈال دیا مہنگائی دن بھر دن بڑھتی جارہی ہیں بنیادی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ عوام پریشان بےروزگار بیماریوں کا شکار بچی کسر ابھی تک سیاسی کرونا ختم لینے کا نام نہیں لیتا حکومتيں اجلاس پارٹیاں خوب ھلاگھلا موج مستی جاری ہے تعلیمی ادارے برباد کردیٸے عوام کو مزید جاہل کردیا وغيرہ اور جو انکے باقی ہزاروں حواری حکومتی سہولتوں کے مزے لیتے اپنی پرانی ڈگر پر میلے میں آئے جھولے جھولتے جلیبیاں کھاتے اور موت کے کنویں میں موٹر سائکل چلاتے تماشے دیکھنے میں مصروف ہیں عام آدمی کے معاملات تھانہ کچہری نادرا محکمہ مال تعلیم مہنگائی علاج اور ٹریفک سے منسلک ہوتے ہیں اور یہ تمام گھوڑے اپنی ساٹھ سالہ روایت کے مطابق سرپٹ بھاگ رہے ہیں با اثر لوگ وسائل پیسہ اختیارات اور اثر رسوخ والوں پر حکومتی تبدیلی کسی کے آنے جانے کا کوئی فرق ہی نہیں پڑا عام آدمی جسے کسی سیاسی جماعت یا لیڈر سے کوئی جذباتی وابستگی نہیں ہوتی وہ ہر آنے والے کی کسی بہتر تبدیلی کا اندازہ اپنی ڈھوک بہک گاؤں اور قصبے میں کسی اچھی تبدیلی سے ماپتا ہے اور بدقسمتی سے نیچے کی سطح گراس روٹ لیول پر کچھ نہیں بدلا نہ امن و امان کی حالت بدلی نہ وزیر ٹرانسپورٹ کا کوئی کارنامہ نظر آیا نہ صوبائی وزیر سیاحت کی کوئی کارکردگی نظر آتی ہے نہ محکمہ مال میں کوئی انقلابی تبدیلی سارے ہی صوبائی محکمے اسی روش مرضی اور نپی تلی روایتوں کے اسیر بے ہوش لوگ نظر آتے ہیں عام آدمی کے ذہن میں یہ خوش فہمی بیٹھی تھی کہ جیسے نیچے تک نظام بدل جائے گا ثابت شدہ کرپٹ درندے آج بھی سزا سے بچے ہوٸے ہیں حرام خور لوٹی دولت سے آج بھی پراڈو پورشے اور ویگو کے کارواں میں گھومتے ہیں اور عام آدمی آج بھی تحصیل و ڈسٹرکٹ کی ہسپتالوں سے ریفر ہو ہو کر راستوں میں دم تو ڑ رہا ہے غریب باپ آج بھی بچوں کو تعلیم کی بجائے مزدوری کیلئے بھیج رہا ہے کیونکہ تبدیلی کے اثرات شاید بڑے شہروں کی قسمت بنتے ہوں رورل ایریا دیہات اور قصبے آج بھی اسی ساٹھ سالہ روایتوں کے ستونوں پر کھڑے ہیں اسلئے کہ حکومتی عہدے داروں میں اداروں اور اداروں کے سربراہوں کو متحرک کرنے ان سے کام لینے اور انہیں اور خود عام آدمی کی دہلیز تک پہنچنے کی نہ عقل سمجھ ہے اور نہ ہی صلاحیت اور نہ ہی شاید موجودہ سسٹم میں اسکی کوئی ضرورت محسوس کی جاتی ہے ضروری نہیں آپ میرے خیالات سے اتفاق کریں لیکن آپ ایک بات سے متفق ضرور ہونگے کہ اگر آپ کے پاس پیسہ ہے اختیارات اور اثر کی لاٹھی ہے تو ہر بھینس ہر دور کی بھینس آپکی ہے۔