Reg: 12841587     

کوئی اوپر سے اپنے فیصلے لاکر نافذ نہیں کر سکتا،پارٹیوں کے فیصلے بھی جمہوری انداز میں ہونے چاہیں ,چیف جسٹس گلزار احمد

(اسلام آباد سے ھیڈ آف نیوز منتظر مہدی)

سپریم کورٹ میں سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے سے متعلق معاملہ کی سماعت کے دوران چیف جسٹس  گلزار  احمد  نے ریمارکس دئیے ہیں کہ جہموریت میں پارٹی قیادت کا کوئی کردار نہیں ہوتا،جہموریت میں فیصلے پارٹی کرتی ہے قیادت نہیں،کوئی اوپر سے اپنے فیصلے لاکر نافذ نہیں کر سکتا،پارٹیوں کے فیصلے بھی جہموری انداز میں ہونے چاہیں،آئین میں پارٹیوں کا ذکر ہے شخصیات کا نہیں،دیکھنا ہو گا کس کو ووٹ دینا ہے یہ فیصلہ پارٹیاں کیسے کرتی ہیں،کیا پارٹیوں کے پاس اجلاس کے منٹ ہوتے ہیں،ہم یہاں بین الاقوامی ایشوز پر فیصلہ کرنے کیلئے نہیں بیٹھے،ہمارے سامنے تین صورتحال ہیں،کیا آرٹیکل 226 کا سینیٹ انتخابات پر اطلاق ہوتا یا نہیں؟کیا متناسب نمائندگی سنگل ٹرانسفر ایبل ووٹ کے ذریعے ہو سکتی ہے؟کیا آئین کے تحت ہونے والے انتخابات خفیہ ہوتے ہیں؟سیکرٹ بیلٹ سے متعلق معاملات پارلیمنٹ پر چھوڑے گئے ہیں،اس کا فیصلہ پارلیمنٹ نے کرنا ہوتا ہے،ہم پارلیمنٹ نہیں اور نہ ہی اس کے دائرہ اختیار کو محدود کر سکتے ہیں۔معاملہ کی سماعت چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں قائم پانچ رکنی لارجر بینچ نے کی۔ دوران سماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے وکیل میاں رضا ربانی نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوۓ بتایا کہ یہاں ایوان زیریں میں ووٹنگ کی مثالیں دی گئیں،عدالت کے سامنے معامله ایوان زیریں کا نہیں بلکہ ایوان بالا کا ہے،خفیہ ووٹ ووٹر کا اپنا راز ہے،ووٹر اپنا راز کسی اور ووٹر سے تو شیئر کر سکتا ہے ریاست سے نہیں،آئین کا یہی منشاء ہے کہ ووٹر پر کسی قسم کا دباؤ نہ آئے،اگر ووٹ قابلِ شناخت بنا دیا جائے تو یہ راز صرف ووٹر کا راز نہیں رہے گا،اگر عدالت اوپن بیلٹ کے نتیجے پر پہنچتی ہے تو موجودہ الیکشن ایک عارضی قانون کے تحت ہوگا،یہ عارضی قانون ایک آرڈیننس کی صورت میں پہلے سے موجود ہے،آرڈیننس کی مدت 120 دن ہوتی ہے،میں یہاں آرڈیننس کی نہیں بلکہ آئینی نکتے کی بات کر رہا ہوں،آئین کے مطابق سینیٹ کا الیکشن عارضی قانون کے تحت نہیں ہو سکتا،ووٹ کو خفیہ رکھا گیا،آئین نے ووٹر کی آزادی کا تحفظ کیا ہے،خفیہ ووٹ وٹرز کا حق ہے،ووٹ کی شناخت ووٹر کی آزادی سلب کرنے کے مترادف ہے،سوال یہ ہے کہ بیلٹ خفیہ ہے کہ نہیں،بیلٹ خفیہ نہیں لیکن جب بیلٹ پیپر ووٹر کے ہاتھ میں آتا ہے تو اس کی سکریسی شروع ہوجاتی ہے،ووٹر کو بھی پابند بنایا گیا ہے کہ وہ اپنا ووٹ طاہر نہ کرے،خفیہ بیلٹ کا تحفظ آئین میں ہے،ووٹنگ ریاستی اداروں اور آفسران کو بھی پابند کرتی ہے،ریاستی آفسران بھی نہیں دیکھ سکتے کہ ووٹر نے کس کو ووٹ دیا، قومی اسمبلی میں متناسب نمائندگی سیاسی پارٹیوں کی ہوتی ہے،سینٹ میں متناسب نمایندگی صوبوں کی ہوتی ہے۔ اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے اس موقع پر ریمارکس دئیے کہ آپ کی دلیل صرف قومی اسمبلی کے چناؤ کے لیے کارگر ہے،قومی اسمبلی کا ووٹ فری ہوتا ہے،فری ووٹ کا مطلب ووٹر کی آزادی ہے،سینٹ کے ووٹ کے لیے فری نہیں کہا گیا،اس لیے اس کا خفیہ ہونا ضروری نہ ہے،متناسب نمائندگی کے تصور کو رکھیں تو پھر ووٹ کو خفیہ رکھنے کی کوئی وجہ نہیں،اگر پارلیمنٹ قانون سازی کر دے کہ الیکشن اوپن بیلٹ سے ہوگا تو کیا آپ اسے درست سمجھیں گے؟آئین میں استعمال شدہ لفظ “الیکشن” کو غلط نہ کہیں،آپ نے جسٹس یحییٰ آفریدی کے سوال جواب نہیں د یا،کیا ہر ایم پی اے ووٹ دینے کے کیے ازاد ہوتا ہے؟کیا بین الاقوامی معاہدے سینٹ الیکشن خفیہ ووٹنگ کے زریعے کروانے کا کہتے ہیں؟سپریم کورٹ کسی بین الاقوامی معاہدے کی حامی نہیں۔پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے دلائل دئیے کہ اگر پارلیمنٹ کوئی ایسا قانون بنائے جو آئین سے متصادم ہو تو یہ عدالت اسے کالعدم قرار دے سکتی ہے،یہ عدالت ماضی میں ایسے قوانین کالعدم کر چکی ہے،آئین کے آرٹیکل 226 کی ذیلی شق کے تحت کسی ووٹر کو کسی بھی صورت میں بیلٹ اوپن کرنے ہر مجبور نہیں کیا جا سکتا،یہ عدالت مشاورتی اختیار کے تحت ریفرنس سن رہی ہے،عدالت نے اسکا جواب سیاسی طور پر نہیں قانون کے مطابق دینا ہے،حکومت نے یہ ریفرنس قانون کی تشریح کے لیے نہیں بلکہ سیاسی مقاصد کے لیے دائر کیا ہے،سینٹ الیکشن خفیہ ووٹنگ سے ہوتا ہے،تمام ایم پی ایز اپنی انفرادی حثیت میں ووٹ ڈالتے ہیں،ووٹ انفردای ہوں تو رائے شماری خفیہ ہی ہو سکتی،یہ فیصلہ پارٹی قیادت کرتی ہے میں صرف ممبر ہوں،میرے دلائل کرپشن یا ڈیپ سٹیٹ پر نہیں قانون پر ہوں گے،مخصوص نشستوں پر الیکشن نہیں سلیکشن ہوتی ہے،پارٹیاں مخصوص نشستوں کے لیے لسٹ فراہم کرتی ہیں، پارٹی لائن پر عمل کرنا سینٹ الیکشن کے لیے لازمی نہیں، سیاسی جماعتوں کے اجلاس کے منٹ ہوتے ہیں،پارلیمنٹ میں ہر روز مختلف بلوں پر ووٹنگ ہوتی ہے،کبھی اپوزیشن حکومت کو اور کبھی اپوزیشن حکومت کو ووٹ دیتی ہیں،صدر مملکت کے انتخاب کا مکمل طریقہ کار موجود ہے،سینیٹ الیکشن آئین کے تحت ہوتے ہیں قانون پر نہیں۔وکیل ن لیگ بیرسٹر ظفر اللہ نے دلائل دیتے ہوۓ موقف اپنایا کہ  پاکستان کئی بین الاقوامی معاہدوں کا حصہ ہے،الیکشن ایکٹ کی تیاری کے دوران خفیہ ووٹنگ پر بحث ہوئی تھی،تحریک انصاف سمیت ہر سیاسی جماعت نے اس وقت خفیہ ووٹنگ کی حمایت کی تھی،سینیٹ الیکشن کے بعد صوبائی اسمبلیاں تحلیل بھی ہو سکتی ہیں،صوبائی اسمبلیوں کے دوبارہ انتخابات میں کوئی اور جماعت بھی حکومت میں آسکتی ہے،اگر متناسب نمائندگی پارٹیوں کی ہے تو نئی اسمبلیوں میں کی سینٹ میں کیا پوزیشن ہو گی، 1997 میں ن لیگ نے تمام پارٹی سربراہان کو اختیارات دینے کا قانون بنایا،ن لیگ کے بنائے قوانین میں 2002 اور 2010 میں ترامیم بھی کی گئیں،خفیہ ووٹنگ ختم ہوئی تو جمہوریت کے لئے دھچکا ہو گا۔وکیل سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل صلاح الدین نے اپنے  دلائل میں موقف اپنایا کہ میری آئینی ذمہ داری عدلیہ کی معاونت کرنا ہے،یہ ایک سنجیدہ سیاسی بحران ہے عدالت کو سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا ہوگا،بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے کا معاملہ سپریم کورٹ آیا تھا لیکن عدالت نے خود کو اس سے الگ رکھا تھا،سپریم کورٹ نے بنگلہ دیش کے معاملے پر کوئی آئینی جواب نہ دے کر عدالتی دانشمندی کا مظاہرہ کیا تھا،موجودہ کیس میں بھی عدالت دانشمندی کا مظاہرہ کرے اور اس سے الگ رہے،موجودہ حکومت نے اپنی سیاسی ذمہ داریاں اور بوجھ عدالت کے کندھوں پر ڈال دیا ہے،1990 میں بابری مسجد کے معاملے پر بھارتی سپریم کورٹ حکومت کا بوجھ اٹھانے سے انکار کر چکی ہے،سینیٹ انتخابات سے متعلق صدر کا ریفرنس غیرقانونی ہے،حکومت عدلیہ سے کھلواڑ کر رہی ہے عدالت اس ریفرنس کو اٹھا کر باہر پھینک دے،اٹارنی جنرل نے یہ نہیں بتایا کہ قانون کیا ہے بلہ یہ کہتے رہے کہ قانون کیا ہونا چاہیے،حکمران جماعت کے علاوہ تمام جماعتیں اس کی مخالف ہیں، اس معاملے پر پارلیمنٹ میں ایک ترمیم پہلے سے ہی زیر التوا ہے،حکومت نے ریفرنس بھی بھیج دیا اور آرڈیننس بھی جاری کردیا،دو سال پرانی وڈیوز بھی منظرعام پر آئی ہیں،بدعنوانی سیکرٹ بیلٹ سے بڑھتی ہے یا کم ہوتی ہے، اس کا دوسرا پہلو بھی دیکھنا ہوگا،ریفرنس کے ذریعے عدالت کی رائے طلب کی گئی،عدالت نے اپنے 17 قیمتی دن لگا کر حکومتی موقف کو سنا،حکومت نے عدالت میں اوپن بیلٹ کو شفافیت سے تشبیہ دی،اٹارنی جنرل نے رائے طلب کرنے کی بجائے اپنی بات سپریم کورٹ پر تھوپنے کی کوشش کی،اٹارنی جنرل نے عدالت سے رائے دینے کا نہیں بلکہ اوپن بیلٹ سے الیکشن کرانے کی استدعا کرتے رہے،اٹارنی جنرل نے بتایا کہ آئینی انتخابات وہی ہوتے ہیں جس میں مشینری آئین دیتا ہے،اٹارنی جنرل صرف اپنی مطلب کی بات بتا گئے اور حقائق عدالت سے چھپائے,آئین میں مختلف الیکشن کا کہا گیا ہے،عام انتخابات آئینی کمانڈ ہے لیکن طریقہ کار آئین میں نہیں،تاہم عام انتخابات بھی خفیہ ہوتے ہیں،آرٹیکل 226 نہ ہو تب بھی صدر کے الیکشن خفیہ ہی ہوں گے,برطانیہ میں محکوم لوگوں کے لیے اوپن بیلٹ جبکہ اپنے لیے ووٹ کو خفیہ رکھا ہوا تھا،اوپن بیلٹ کے خطرات کو بھی دیکھنا ہوگا،ہمارا آئین مغربی طرز کا ہے ہمارے آئین میں بھی پارٹی لائن مختلف ہوتی ہے،ترقی یافتہ ممالک میں سیاستدان پارٹی پالیسی سے اختلاف کرتے ہیں،ٹرمپ کے مواخذے کے معاملے پر اراکین نے اپنی پارٹی کے برخلاف ووٹ دیا،فرض کریں اگر کوئی جماعت شیطان سے اتحاد کرے تو مجھے اختلاف رائے کا حق حاصل ہے,بھارت میں صدر کے چناؤ کے بعد یہ نہیں کہا جا سکتا کہ متناسب نمائندگی کا اصول متاثر ہوا ہے،متناسب نمائندگی کا مطلب سب کو موقع دینا ہوتا ہے۔بعد ازاں معاملہ کو سماعت ایک دن کے لئے ملتوی کر دی گئی ہے۔ ریفرنس میں پاکستان بار کونسل اور جے یو ائی اپنے دلائل آیندہ سماعت پر دیں گ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Previous Post

ایف ایٹ کچہری میں وکلاء کے چیمبرز گرانے کا معاملہ

Next Post

پنجاب میں شیرنیوں کی دھاڑ

Related Posts
Total
0
Share