Reg: 12841587     

سپریم کورٹ میں سینیٹ انتخابات سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت مکمل

(اسلام آباد سے ھیڈ آف نیوز منتظر مہدی)

سپریم کورٹ میں سینیٹ انتخابات سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت مکمل، عدالت عظمیٰ نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر ریفرنس پر اپنی راۓ محفوظ کر لی ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے اب محفوظ شدہ راۓ سے صدر مملكت کو باقاعدہ طور پر آگاہ کیا جاۓ گا۔صدر مملكت کو عدالت عظمیٰ کی راۓ سے آگاہی کا طریق کار اور وقت کا تعین ابھی نہیں کیا گیا تا ہم الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے عدالت عظمیٰ سے معاملہ کی سماعت کے دوران درخواست کی گئی ہے کہ بر وقت انتخابی عمل کی تکمیل کے لئے 28 فروری تک عدالت اپنی راۓ ظاہر کرے۔ اٹارنی جنرل نے بھی عدالت عظمیٰ سے معاملہ پر اپنی راۓ جلد از جلد دینے کی استدعا کی گئی ہے۔جمعرات کو معاملہ کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے کی۔ دوران سماعت چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیتے ہوۓ کہا کہ سنگل ٹرانسفر ایبل ووٹ اور متناسب نمائندگی کا معاملہ صدر نے نہیں اٹھایا،ہمیں سیاسی اتحادات سے کیا لینا دینا،ہم نے ریفرنس میں پوچھے گئے سوالات تک محدود رہنا ہے،ہم اپنی حد سے باہر نہیں جائینگے،ہمیں جزئیات میں نہیں جانا،الیکشن کمیشن بدعنوانی کے خلاف محافظ ہے،ووٹر ایک کمرے میں بیٹھ کر کسی کے ساتھ خفیہ معاہدہ کرے تو الیکشن کمیشن کیا کرسکتا ہے،بدعنوانی تو ہوگئی لیکن الیکشن کمیشن لاعلم رہا،1973 سے آئین بنا، متعدد قانون سازی ہوئی لیکن کسی نے اس مسلے کو نہیں دیکھا،پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نے حکومتوں کے باوجود اس حوالے سے کچھ نہیں کیا،پارلیمنٹ نے کچھ بھی نہیں کیا،تحریک انصاف کی حکومت نے اب اس معاملے کو اٹھایا یے،غلطی کو روکنے کے لیے موجودہ حکومت اقدامات کررہی ہے۔پارلیمنٹ اگر بل سے متفق ہے تو پاس کرے ورنہ مسترد کردے۔یہ کسی ایک پارٹی کا معاملہ نہیں،تمام سیاسی پارٹیاں ایسا چاہتی ہیں ۔بھارت میں سینیٹ انتخابات قانون کے تحت ہوتے ہیں ہم اس کا جائزہ لے رہے ہیں،عدالت میں ریفرنس صدر پاکستان نے بھیجا ہے،الیکشن کمیشن کہہ چکا ہے کہ سیکرٹ بیلٹ کے تحت الیکشن ہو گا،مقامی حکومتوں کے انتحابات کا طریقہ کار تو آئے روز تبدیل ہوتا رہتا ہے،عدالت کا سیاست سے تعلق نہیں، صرف آئین کی تشریخ کرینگے۔جسٹس عمر عطاء بندیال نے ایک موقع پر ریمارکس دئیے کہ بدعنوان سرگرمیاں روکنے کا مقصد جرم روکنا ہے،سوال یہ ہے کہ کرپٹ پریکٹس روکنے کیلئے کس ٹھوس شہادت پر انخصار کیا جائے، اعجاز الاحسن نے اس موقع پر کہا کہ دو طریقے ہیں،پہلا طریقہ پیسوں کے لین دین کے استعمال کے الزام کو جانچنا ہے،دوسرا طریقہ یہ ہے کہ بیلٹ دیکھا جائے،سب سے اہم شہادت بیلٹ ہے،چوکیدار کو چوری سے بچنے کیلئے رکھا جاتا ہے،سیاسی جماعتوں کا کردار دنیا بھر میں بہت اہم ہے،ڈسپلن نہیں رکھنا تو سیاسی جماعتیں بنانے کا کیا فائدہ ہے،الیکشن کمیشن سویا ہوا ہے اور جاگنے کو تیار نہیں،الیکشن کمیشن نے کرپشن بھی روکنی ہے صرف انتحابات ہی نہیں کرانے،بار بار پوچھا کرپشن روکنے کے لیے کیا اقدامات کیے کوئی جواب نہیں ملا،جسٹس یحییٰ آفریدی نے ایک موقع پر سوال اٹھایا کہ کیا ریفرنس پرسپریم کورٹ کی رائے ختمی ہوگی،عدالتی رائے پر نظر ثانی درخواست آسکتی ہے،کیا ایسا فیصلہ درست ہوگا جس کے اثرات سیاسی ہوں اور نظر ثانی بھی نہ ہو سکے۔پاکستان بار کونسل کے وکیل عثمان منصور نے دلائل دئیے کہ ہر ووٹ کا خفیہ ہونا لازم ہے،کوئی بھی ووٹ پر اثر انداز نہ ہو۔ووٹر کو ووٹ کے ذریعے فیصلے کا اختیار دیا گیا ہے،متناسب نمائندگی ککا اصول دونوں ایوانوں کے لیے ہے۔سیاسی اتحاد ہماری تاریخ ہے۔بلوچستان کے معاملے کو بطور مثال دیکھ لیں۔بلوچستان اسمبلی میں کل 65 اراکین ہیں۔وہاں ہر اسمبلی میں دس سیاسی جماعتیں اور ایک آزاد ممبر ہے۔صرف تین سیاسی جماعتیں اکثریت رکھتی ہیں۔باقی جماعتوں کا کیا ہوگا، وہ اتحاد کرکے صورتحال تبدیل بھی کرسکتی ہیں۔بلوچستان میں سیاسی اتحاد کوئی بھی صورتحال بنا سکتے ہیں۔پارلیمنٹ میں پہلے سے ہی بل موجود ہے۔آئین میں وقت کے ساتھ نمو ہوتا ہے، قانون سازی کا اختیار پارلیمنٹ کا ہے۔انتخابات سے قبل کرپٹ پریکٹس روکنے کا آئینی اختیار الیکشن کمیشن کو حاصل ہے،انتخابات کے بعد کرپٹ پریکٹس کو جانچنے کیلئے الیکشن ٹربیونل موجود ہے،اگر سینیٹ الیکشن اوپن بیلٹ کے زریعے ہوا تو پھر تمام الیکشنز کا بیلٹ اوپن ہو جائے گا،بھارتی آئین میں لکھا ہے سینیٹ الیکشن قانون کے تحت ہوتے ہیں۔ لاہور ہائیکورٹ بار کے وکیل خرم چغتائی نے دلائل دئیے کہ وفاقی حکومت کو عدالت سے رائے مانگنے کا اختیار نہیں، اٹارنی جنرل وفاقی حکومت کے وکیل ہوتے ہیں صدر کے نہیں، صدر عارف علوی خود آئینی اصلاحاتی کمیٹی کے ممبر تھے،کابینہ میں بیٹھے ہوئے اکثر وزرا بھی آئینی اصلاحاتی کمیٹی کے ممبر تھے،صدر نے کابینہ یا وزیراعظم کی ایڈوائس پر کام کرنا ہوتا ہے،عدالت خود تو سترہ دن حکومتی موقف سنتی رہی اور ہمیں سننا بھی گوارا نہیں کر رہی،اراکین اسمبلی سینیٹ کا الیکٹورل کالج ہے،ان اراکین کے ساتھ کیسا سلوک ہو رہا ہے،اراکین اسمبلی کو عام شہریوں کے مقابلے میں خصوصی حیثیت حاصل ہے۔وکیل قمر افضل نے دلائل دئیے کہ میری رائے میں یہ ریفرنس قابلِ سماعت ہے،ریفرنس کے قابلِ سماعت ہونے کے حوالے سے اٹارنی جنرل کی رائے سے اتفاق کرتا ہوں،سینیٹ الیکشن کا معاملہ آرٹیکل 226 سے جڑا ہے،آرٹیکل 226 خفیہ ووٹنگ کا کہتا ہے،سینیٹ الیکشن آئین کے تحت ہوتے ییں،میں وہ پہلو بیان کرونگا جن پر بات نہیں ہی گئی،سپریم کورٹ میں جو پہلا ریفرنس آیا اس پر جواب دیا گیا،متناسب نمائندگی ووٹ ڈالنے کا ایک میکانزم ہے،یہ مکینیکل طریقہ ووٹر کے فیصلے کے اختیار پر اثرانداز نہیں ہوتا،آرٹیکل 226 میں خفیہ بیلٹ کا باقاعدہ تعین کیا گیا ہے،آرٹیکل 226 کا اطلاق تمام انتخابات پر ہوتا ہے،ووٹ اور سیکرٹ بیلٹ میں فرق ہے،ووٹر کو اپنے فیصلے کھلا اختیار حاصل ہے،بیلٹ پیپر اس اختیار کو استعمال کرنے کا آلا ہے،اٹارنی جنرل نے چیک بک بیلٹ پیپر کی استدعا کی ہے،الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے اور انتخابی ریکارڈ کا محافظ بھی ہے،الیکشن کمیشن بطور محافظ سیکرٹ بیلٹ کو نہیں دیکھ سکتا؟ الیکشن کمیشن کو ووٹ کا جائزہ لینے کے لیے کسی کو فون کی ضرورت نہیں،آسٹریلیا اور انگلینڈ میں ووٹ قابل شناخت ہوتا ہے،انتحابی ریکارڈ کی حفاظت الیکشن کمیشن کی زمہ داری ہے،کمیشن نے جس ریکارڈ کو تحفظ دینا ہے اسے دیکھنے پر پابندی نہیں لگ سکتی،ووٹ کو ہمیشہ کے لیے خفیہ نہیں رکھا جاسکتا، عوام کا حق ہے کہ وہ جان سکیں انکے نمائندے نے ووٹ کس کو دیا،35 کروڑ روپے تک ٹکٹ بیچنے کی خبریں آرہی ہیں،ووٹرز کے اثاثوں کی تفصیلات نیب سے لی جائیں،آرٹیکل 63-A پارٹی کے خلاف ووٹ دینے کی اجازت دیتا ہے۔اٹارنی جنرل نے جواب الجواب میں موقف اپنایا کہ ووٹ کا جائزہ لینے سے سیکریسی ختم نہیں ہوتی،کوئی شہری پیسہ لیکر ووٹ نہ دے یہ جرم ہوگا،کوئی ایم پی اے ووٹ نہ ڈالنے کے پیسے لیکر ووٹ ڈالے تو جرم نہیں ہوگا،ریفرنس سیاسی نہیں آرٹیکل 226 کی تشریح کیلئے ہے،حکومت عدالت کی رائے کی پابندہوگی،ریفرنس پر نظر ثانی درخواستیں نہیں آسکتی، عدالت ہر چیزکا تفصیل سے جائزہ لیکر فیصلہ کرتی ہے،کہا گیا کہ سیاسی معاملہ ہے اور حکومت نے اپنا بوجھ عدالت پر ڈال دیا،یہ سیاسی معاملہ نہیں بلکہ صدر نے آئینی سؤالات پوچھے ہیں،عدالت صدر کی جانب سے پوچھے گئے سوالات پھر دیکھ لے،تمام سؤالات آئینی ہیں اور آئین کے تحت پوچھے گئے،ویسے سپریم کورٹ سیاسی سوالات کے بھی جوابات دے چکی ہے،سپریم کورٹ نے 2015 میں نواز شریف کے معاملے پر بھی سیاسی سوالات کے جوابات دیے،سپریم کورٹ میں جو معاملہ آتا ہے اس کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے،امریکی عدالت بھی سیاسی سوالات کے جوابات دیتی رہی ہے،بھارتی سپریم کورٹ بھی راجھستان کے سیاسی معاملے پر جواب دے چکی ہے،یہ پورا کیس آئین کے آرٹیکل 226 کے گرد گھومتا ہے،الیکشن کمیشن کی ذمہ داریوں سے متعلق معاملہ ہے،صدارتی ریفرنس ہرگز سیاسی معاملہ نہیں لیکن اس کے سیاسی نتائج ضرور ہونگے،بنگلہ دیش کے معاملے پر بھی عدالت نے جواب دیا تھا۔عدالت عظمیٰ میں صدارتی ریفرنس پر فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر اپنی راۓ محفوظ کر لی ہے۔ جسے عدالت اب اپنی سہولت کے مطابق پبلک کرے گی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Previous Post

ساہیوال نواحی گاؤں 43 فورایل ظالم وڈیرے نے ظلم کی انتہا کر دی- جس سے انسانیت بھی شرما گئی-

Next Post

کے پی ایل کے انعقاد سےمسلئہ کشمیر کو اجاگر کرنے میں مدد ملے گی,چیف ایگزیکٹو آفیسر, پاکستان کرکٹ بورڈ وسیم خان

Related Posts
Total
0
Share