Reg: 12841587     

استقبالِ رمضان اور اُس کے تقاضے

مشال ارشد (سیالکوٹ)

رمضان المبارک بہت ہی عظیم الشان مہینہ ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے دن کے روزے فرض کئے اور رات کے قیام یعنی تراویح کو سنت قرار دیا ہے۔ اس ماہ میں اعمالِ صالحہ کا اجر و ثواب کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔ یعنی نفل کا اجرو ثواب فرض کے برابر اور ایک فرض کا ثواب ستّر کے حساب سے زائد کیا جاتا ہے۔ برکتوں والے اس ماہ مبارک میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بڑھ کر ہے، یہ غم خواری اور غمگساری کا مہینہ ہے، اس میں بندۂ مومن کا رزق بڑھادیا جاتا ہے۔ 

جیسا کہ حضرت سلمان فارسیؒ سے روایت ہے کہ ماہِ شعبان کی آخری تاریخ کو آنحضرت ﷺنے خطبہ دیا اور اس میں آپ ﷺنے ارشاد فرمایا:’’لوگو! تم پر ایک عظمت اور برکت والا مہینہ آرہا ہے، اس مبارک مہینے کی ایک رات (شبِ قدر) ہزار مہینوں سے بہتر ہے اور اس مہینے کے روزے اللہ تعالیٰ نے فرض کئے ہیں اور اس کی راتوں کو بارگاہ الٰہی میں کھڑا ہونے (یعنی نماز تراویح پڑھنے) کو نفل عبادت مقرر کیا ہے (جس کا بہت بڑا ثواب رکھا ہے) جو شخص اس مہینے میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کا قربِ حاصل کرنے کے لئے کوئی غیر فرض عبادت (یعنی سنت یا نفل) ادا کرے گا تو اسے دوسرے زمانے کے فرضوں کے برابر اس کا ثواب ملے گا اور اس مہینے میں فرض ادا کرنے کا ثواب دوسرے زمانے کے ستّر فرضوں کے برابر ہے۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔ 

یہ ہمدردی اور غمخواری کا مہینہ ہے اور یہی وہ مہینہ ہے جس میں مومن بندوں کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ جس نے اس مہینے میں کسی روزے دار کو (اللہ تعالیٰ کی رضا اور ثواب حاصل کرنے کے لئے) افطار کرایا تو اس کے لئے گناہوں کی مغفرت اور آتش دوزخ سے آزادی کا ذریعہ ہوگا اور اسے روزے دار کے برابر ثواب دیا جائے گا، بغیر اس کے کہ روزے دار کے ثواب میں کوئی کمی کی جائے….آپ ﷺسے عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! ہم میں سے ہر ایک کو تو افطار کرانے کا سامان میسر نہیں ہوتا (تو کیا غربأ اس عظیم ثواب سے محروم رہیں گے؟) آپ ﷺنے فرمایا: اللہ تعالیٰ یہ ثواب اس شخص کو بھی دے گا جو دودھ کی لسی پر یا صرف پانی ہی کے ایک گھونٹ پر کسی روزے دار کا روزہ افطار کرادے اور جو کوئی کسی روزے دار کو پورا کھانا کھلادے، اسے اللہ تعالیٰ میرے حوض (یعنی کوثر) سے ایسا سیراب کرے گا، جس کے بعد اسے کبھی پیاس ہی نہیں لگے گی، تاآنکہ وہ جنت میں پہنچ جائے گا….اس ماہ مبارک کا ابتدائی حصہ رحمت ، درمیانی حصہ مغفرت اور آخری حصہ آتش دوزخ سے آزادی ہے اور جو آدمی اس مہینے میں اپنے غلام و خادم کے کام میں کمی کردے گا، اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمادے گا اور اسے دوزخ سے رہائی اور آزادی دے دے گا۔‘‘ (شعب الایمان للبیہقی)

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺنے فرمایا، جب رمضان کا مہینہ شروع ہوجاتا ہے تو آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں، ایک روایت میںہے کہ رحمت کے دروازے کھل جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند ہوجاتے ہیں اور شیاطین کوقید کردیا جاتا ہے۔ایک روایت میں ہے کہ جنت کو سال بھر رمضان کی وجہ سے مزین کیا جاتا ہے۔ رمضان کی آخری رات کو امت کی مغفرت ہوتی ہے، کسی نے پوچھا کہ یا رسول اللہﷺ! کیا یہ لیلۃ القدر کی رات ہوتی ہے؟ آنحضرت ﷺنے فرمایا: نہیں! بلکہ وجہ یہ ہے کہ مزدور جب مزدوری سے فارغ ہوجاتا ہے تو اسےمزدوری دی جاتی ہے۔

آج مادیت کے اس دور میں ہر آدمی دنیا کے پیچھے دوڑ رہا ہے، مرد ہو ں یا عورتیں شب و روز حصولِ دنیا کے پیچھے سرگرداں نظر آتے ہیں، حتیٰ کہ اس کی وجہ سے نماز جیسا فریضہ بھی پس پشت ڈال دیا جاتا ہے، کبھی نماز پڑھ لی اور کبھی نہ پڑھی، جس کی بناء پر آج کا مسلمان، چڑ چڑا، نفسیاتی اور ذہنی طور پر الجھائو کا شکار نظر آتا ہے، جب کہ سکون قلب، اطمینان اور راحت و آرام جیسے الفاظ کی حقیقت سے نا واقف اور ناآشنا معلوم ہوتا ہے۔ 

ان کے سکون، اطمینان اور راحت و آرام کا سامان اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے، اللہ تعالیٰ کے احکامات ماننے اور حضور اکرم ﷺکے طریقوں پر چلنے میں ہے۔ اسی بناء پر اللہ تعالیٰ نے نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے جہاد جیسے فرائض ہم پر لازم کئے ہیں تاکہ انسان اپنے خالق و مالک اور رزاق کی بندگی بجالائے اور اسے صحیح معنوں میں زندگی کا لطف اور سرور میسر ہو۔

اس مبارک ماہ میں اللہ جل شانہ کی رحمتیں سمیٹنے اور پروانۂ نجات حاصل کرنے کے لئے ہمیں رمضان کا بھرپور استقبال کرنا چاہئے۔ رمضان کے اوقات بہت قیمتی ہیں، معلوم نہیں اگلا رمضان ہمیں نصیب ہوگا یا نہیں۔ لہٰذا اپنے روز مرہ کے ضروری امور نمٹاکر رحمت کی ان گھڑیوں کے لئے فراغت حاصل کرنی چاہئے، تاکہ یکسوئی سے تلاوت، تراویح، نوافل، درود شریف، ذکر و اذکار اور دیگر خیر کے کاموں میں مشغول رہ سکیں،امید ہے کہ اس طرح نفس کو اس کی مرغوبات سے روکنے کی عادت ہوجائے گی، اس سرکش نفس کی اصلاح اور شریعت کے احکام جو نفس کو بھاری معلوم ہوتے ہیں ان کا کرنا سہل ہوجائے گا اور تقویٰ کی نعمت نصیب ہوگی۔ 

ماہِ رمضان میں ہم اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ بھی ہمدردی کا معاملہ کریں، اپنے ماتحتوں اور خادموں کا بوجھ ہلکا کریں۔ خصوصاً تاجر حضرات سے گزارش ہے کہ اس ماہ میں اشیائے خورونوش کی مصنوعی قلت یا ذخیرہ اندوزی کے ذریعے مسلمان بھائیوں کا خون نہ چوسیں۔ دیکھنے میں آتا ہے کہ جو اشیاء غیر رمضان میں ارزاں اور سستی ہوتی ہیں۔ رمضان میں ان کے دام آسمان سے باتیں کرنے لگتے ہیں جس کی وجہ سے غریب اور متوسط طبقہ شدید متاثر ہوتا ہے، ایسی کمائی سے جہاں خیروبرکت اٹھ جاتی ہے وہاں اس کے ساتھ ساتھ معاشرتی شرو فساد بھی جنم لیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے محفوظ رکھے۔(آمین)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Previous Post

ننگرہارمیں طالبان کا چیک پوسٹ پر حملہ، 4 پولیس اہلکار ہلاک

Next Post

خلیل الرحمان قمر نے بھارت سے فلم لکھنے کی آفر کیوں ٹھکرائی؟

Related Posts
Total
1
Share