مشال ارشد سی ایم انڈگراونڈ نیوز
دراصل ہم جنس پرست جوڑے کی بیٹی کیانی ایک اسپرم ڈونر کی مدد سے پیدا ہوئی تھیں ،اور اپنے ساتھ گھٹے ایک واقعے کے بعد انہوں نے ٹھان لیا تھا کہ وہ دنیا بھر سے اپنے بھائی -بہنوں کو ڈھونڈ نکالیں گی اور ان کے ساتھ ٹچ مین رہیں گی۔
امریکہ میں رہنے والی کیانی ایرویا ان دنوں ایک خاص مشن پر ہیں ۔ دراصل ہم جنس پرست جوڑے کی بیٹی کیانی ایک اسپرم ڈونر کی مدد سے پیدا ہوئی تھیں اور اپنے ساتھ گھٹے ایک واقعے کے بعد انہوں نے ٹھان لیا تھا کہ وہ دنیا بھر سے اپنے بھائی – بہنوں کو ڈھونڈ نکالیں گی اور ان کے ساتھ ٹچ رہیں گی۔
دامررویب سائٹ کے ساتھ بات چیت مین 23 سال کی کیانی نے کہا کہ میں جب چار سال کی تھی تو اپنے ساتھ کے بچوں کو دیکھا کرتی تھی ی کہ ان کے کنبت میں ماں باپ والدین کے طور پر موجود ہیں لیکن میری فیملی میں والدین کے طور پر میرے پاس دونوں مائیں تھیں۔ انہوں نے آگے کہا کہ مجھے اپنے والد کو لیکر کچھ باتیں ہی پتہ تھیں کہ ان کی آرٹ اور اسپورٹس میں کافی دلچسپی تھی۔ میں بھی کافی پینٹنگ کیا کرتی تھی اور سفرنگ کیلئے جایا کرتی تھی لیکن میری ماں کا کنبہ ایسا نہیں تھا۔ ایسے میں کئی بار سوچتی تھی کہ آخر مجھے اپنے والد سے اور کون سی چیزیں ملی ہیں۔
کیانی نے کہا کہ میں بچپن سے ہی والد کو یاد کرتی رہی۔ میں اپنے اسپرم ڈونر والد کیلئے فادرس ڈے کارڈس بناتی تھی۔ کئی سالوں تک میرے ڈونر کی پروفائل پرائیویٹ تھی۔ مطلب میرے والد کے اسپرم سے پیدا ہوئے بچے ان سے رابطہ نہیں کر سکتے تھے لیکن کیانی ایک ڈونر کمپنی کیلئے پرموشنل ویڈیو دیکھ کر ان کے والد نے اپنا من بدل لیا تھا۔ اس کے بعد کیانی کے ڈونر نے اپنا پروفائل پبلک کر لیا تھا اور 18 سال کی عمر کی ہونے پر کیانی اپنے والد سے رابطہ کر سکتی تھیں۔ 18 سال کی ہونے سے پہلئ کیانی نے اپنے ان بھائی۔ بہنوں کو کھوجنے کا طریقہ ڈھونڈ نکالا تھا جو کیانی کے اسپرم ڈونت کے ذریعے ہی پیدا ہوئے تھے۔ دراصل کیانی نے اسپرم بینک کے رجسٹر پر سائن کیا تھا۔ اسپرم بینک سے رابطہ کرنے کے بعد ا نہیں اپنے بھائی بینوں کو لیکر جانکاری ملی اور وہ انہیں ڈھونڈنے میں لگ گئی۔
کیانی نے کہا، میں سب سے پہلے 15 سال کی عمر میں ایک کنبے سے ملی تھی جس نے مجھ سے رابطہ کیا تھا۔ اس خاتون کی دو جڑواں بچیاں تھیں اور وہ مجھ سے چھوٹی تھیں۔ یہ بچیاں بھی میرے ڈونر کے چلتے ہی پیدا ہوئی تھیں۔ ان بچیوں کے ساتھ وقت گزار کر مجھے کافی اچھا لگا۔ اس ملاقات سے متاثر ہوکر میں نے اپنے بھائی بہنوں کو ڈھونڈنے کا فیصلہ کیا۔
انہوں نے آگے کہا کہ اب تک مجھے اپنے 63 بھائی بہن مل چکے ہیں۔ یہ امریکہ اور کناڈا سے لیکر آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں بھی پھیلے ہوئے ہیں۔ کیانا کے شہر فلوریڈا میں ان کے 12 بھائی بہن رہتے ہیں۔ وہ اکثر ان سے ملنے جاتی ہیں۔ کورونا وائرس وبا کے ختم ہونے پر وہ ایک بار پھر اپنے بھائی ۔ بہنوں کی کھوج کیلئے نکلنا چاہتی ہیں۔