تحریر:شاعرہ،مصنفہ ،جرنلسٹ سیدہ کوثر لندن سے
کچی عمر کی پکی وحسین یادیں-قسط نمبر 1
اُف غضب کیا ؟ کیا ہی حسین دور یاد کروا دیا پیاری سکھی۔
جناح ڈگری وویمن کالج لاہور کی سب ادبی سرگرمیوں کی ایکٹیو ممبر سیدہ کوثر ۔
اپنی سبھی پروفیسرز اور کالج پرنسپل میڈیم کوثر چیمہ کی پسندیدہ اسٹوڈنٹ،ایف اے کے سالوں میں اردو ادب سوسائیٹی کی وائس پریذیڈنٹ رہی۔
بی اے کے سالوں میں اردو ادب اور پنجابی سوسائیٹی کی پریذیڈنٹ کے طور پہ مشاعروں کا انعقاد، انعامی مقابلہ جات کروانے اور ساتھ ساتھ اسٹیج سیکریٹری کے فرائض انجام دینا پروگرامز ارینج کرنا ، شاید تب سے ہی میری گھٹی میں رہے ہیں۔
جب لاہور کے دوسرے کالجز میں مقابلہ جات سے انعام جیت کر واپسی ہوتی تو ہماری میڈیم کوثر چیمہ جس محبت اور شفقت سے کندھے پہ تھپکی دے کر شاباش دیا کرتی تھیں وہ آج بھی لمس اور فخر دل و دماغ میں موجود ہے ۔
سب سے مزے کی بات یہ ہے کہ سارا کالج حیران و پریشان تھا کہ سبھی پروفیسرز مجھے اتنا زیادہ کیوں حق اور مان دیتی ہیں کہ جب دل چاہوں بلا روک ٹوک ان کے آفس جا سکتی تھی اپنی بات ان تک پہنچا سکتی ہوں۔
کالج کی وائس پرنسپل اور میڈیم نجمہ ، نے جس طرح مجھے توجہ اور خلوص سے نوازا میں آج اس موجود سیدہ کوثر کا سارا کریڈیٹ ان کو دیتی ہوں کئی کئی گھنٹے ان کے آفس میں ان سے علمی و ادبی محافل ہوتیں تھیں انہی سے سیکھا اور سمجھا زندگی کو ، معاملاتِ زندگی کو اسلوب شاعری , قافیہ و ردیف کا چناؤ، مطلع و مقطع کی اہمیت، فنِ تقریر ، کالمز کی تحریری باریکیاں اور مجھے یاد آ رہا ھے جب ان کے اکسانے پہ کچھ کہانیاں اور افسانے بھی لکھ ڈالے اس وقت کے سبھی منعقدہ پروگرامز باقاعدہ نوائے وقت اور جنگ میں پبلش بھی ہوئے آجکل کوشش کر رہی ہوں پرانی یاد یں کسی طرح اکٹھا کر پاؤں۔
ابھی اس وقت بس یہی ڈھونڈ پائی ہوں جیسے جیسے سب کچھ ملتا جائے گا آپ سب کے ساتھ شئیر کرتی جاؤں گی۔