مشال ارشد سی ایم انڈرگراونڈ نیوز
پاکستان کی وزارت خارجہ نے وفاقی وزارتِ داخلہ اور فیڈرل انویسٹیگیشن ایجنسی (ایف آئی اے) سے درخواست کی ہے کہ وہ ملک کے داخلی اور خارجی راستوں پر ایسے افراد پر نظر رکھیں جو حال ہی میں اٹلی کے سفارت خانے سے چوری ہونے والے شینگن ویزا سٹِیکرز پر سفر کر رہے ہوں۔
یہ ویزا یورپ کے 26 ملکوں کے لیے کارآمد ہوتا ہے۔
اس درخواست کی وجہ یہ ہے کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے ڈپلومیٹک انکلیو میں واقع اٹلی کے سفارت خانے نے حال ہی میں پاکستانی وزارتِ خارجہ کو آگاہ کیا ہے کہ سفارت خانے کے لاکر سے ایک ہزار شینگن ویزا سٹِیکرز چوری کر لیے گئے ہیں۔
اٹلی کے سفارتخانے کی جانب سے پاکستانی حکام کو چوری ہونے والے ویزا سٹیکرز کے سیریل نمبرز بھی فراہم کیے گئے ہیں جبکہ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ سفارتخانے کے حکام اس معاملے کی تفتیش کر رہے ہیں تاکہ ذمہ داران کا تعین کیا جا سکے۔
وزارت خارجہ کے حکام نے اس واقعے سے متعلق اٹلی کے سفارت خانے کی جانب سے ملنے والے خط کی تصدیق کی ہے تاہم متعلقہ پولیس سٹیشن چوری کی اس واردات سے ابھی تک لا علم ہے۔
انڈرگراونڈ نیوز کے رابطہ کرنے پر ایس پی سٹی رانا وہاب نے اٹلی کے سفارت خانے سے ویزا سٹیکرز چوری ہونے کے واقعے سے لاعلمی کا اظہار کیا کیونکہ اُن کا کہنا تھا کہ ابھی تک اٹلی کے سفارتخانے کے حکام کی طرف سے اس واقعے کی رپورٹ تھانہ سیکریٹریٹ میں درج نہیں کروائی گئی۔
دفتر خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چوہدری نے بی بی سی کو بتایا کہ اُن کے علم میں بھی ابھی یہ معاملہ آیا ہے اور اس کے بارے میں معلومات اکٹھی ہونے کے بعد یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ اس بارے میں ہونے والی پیش رفت سے متعلق میڈیا کو کس حد تک آگاہ کرنا ہے۔
وزارت خارجہ کے حکام کے مطابق اٹلی کے سفارتخانے نے اس واقعے کی بابت آگاہ کرتے ہوئے درخواست کی ہے کہ پاکستانی وزارت خارجہ چوری ہونے والے شینگن ویزا سٹیکرز کے سیریل نمبرز کو پاکستان کے تمام ایئر پورٹس پر آویزاں کر دیں تاکہ اگر کسی شخص کے پاسپورٹ پر یہ سٹیکر موجود ہو تو اس کو گرفتار کیا جا سکے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ اٹلی کا سفارت خانہ ڈپلومیٹک انکلیو میں واقع ہے جہاں پر عام آدمی کا داخلہ ممکن نہیں ہے۔ ڈپلومیٹک انکلیو کی سکیورٹی کے لیے اسلام آباد پولیس کا ایک الگ وِنگ ہے۔ اس علاقے میں رہائش پذیر لوگوں کو خصوصی پاس جاری کیے جاتے ہیں اور متعدد خفیہ اداروں کے اہلکار اس علاقے میں مقیم رہائشیوں کو پاسز اور ان کے زیر استعمال گاڑیوں کو سٹیکرز جاری کرنے سے پہلے ان کی مکمل چھان بین کرتے ہیں۔
ایف آئی اے حکام کے مطابق ملکی تاریخ میں کسی بھی غیر ملکی سفارت خانے سے اتنی بڑی تعداد میں ویزا سٹیکرز چوری ہونے کا یہ پہلا واقعہ ہے۔
ایف آئی اے کے ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ انھیں منگل کے روز وزارت داخلہ کی طرف سے اس ضمن میں ایک خط موصول ہوا ہے جس پر تحققیات کا اغاز کر دیا گیا ہے اور اس ضمن میں تمام ایئرپورٹس پر چوری ہونے والے شینگن ویزا سٹیکرز کے سیریل نمبر بھی شیئر کیے گئے ہیں۔
ایف آئی اے کے اہلکار کے مطابق یہ معاملہ ایف آئی اے کے ڈائریکٹر اسلام آباد زون کو بھیجا گیا ہے۔
ڈائریکٹر اسلام آباد زون وقار چوہان سے اس کیس میں ہونے والی تفتیش کے حوالے سے جاننے کے لیے متعدد بار رابطہ کیا گیا لیکن اُن سے بات نہیں ہو سکی ہے۔
ایف آئی اے کے اہلکار کے مطابق اس بات کا امکان ہے کہ ایف آئی اے کا پاسپورٹ سیل ہی اس معاملے کی چھان بین کرے گا۔
چوری ہونے والے سٹیکرز کہاں استعمال ہو سکتے ہیں؟
یاد رہے کہ اٹلی کے سفارتخانے سے چوری ہونے والے سٹیکرز شینگن ویزا کے سٹیکرز ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص کے پاسپورٹ پر یہ سٹیکر ہو گا وہ اٹلی کے علاوہ پورپی یونین کے دیگر ممالک میں بھی سفر کر سکتا ہے۔
شینگن ویزا پر یورپ کے 26 ممالک کا سفر کیا جا سکتا ہے۔
اسلام آباد میں ٹریول ایجنسی کے کاروبار سے منسلک چوہدری یاسر کا کہنا ہے کہ اس بات کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا کہ اتنی بڑی تعداد میں سٹیکرز چوری ہونے میں انسانی سمگلرز کا بہت با اثر گروہ ملوث ہو۔
انڈرگراونڈ نیوز سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ بظاہر اس واقعے میں انسانی سمگلرز کا کوئی گینگ ہی ملوث ہو سکتا ہے جس کے اس سفارتخانے کے اندر بھی رابطے ہو سکتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ سفارت خانے کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ چوری ہونے والے ان سٹیکرز کو بلیک لسٹ میں ڈال دیں جس کے بعد اگر کسی شخص کے پاسپورٹ پر یہ سٹیکر چسپاں ہوا تو اس کو گرفتار کیا جا سکتا ہے۔
چوہدری یاسر کا کہنا تھا کہ اٹلی کے سفارت خانے کے عملے کے نوٹس میں یہ معاملہ آنے سے پہلے اگر یہ سٹیکرز استعمال ہوگئے ہیں تو کچھ کہا نہیں جا سکتا مگر ان سٹیکرز پر سفر کرنے والوں کو باآسانی ٹریس کیا جا سکتا ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان میں انسانی سمگلنگ کے حوالے سے اور بلخصوص لوگوں کو غیر قانونی طریقے سے یورپی ملکوں میں بھجوانے کے سلسلے میں بہت سے گروہ متحرک ہیں جن کے بارے میں ایف آئی اے ہر سال ریڈ لسٹ بھی جاری کرتا ہے۔
ایف آئی اے کے حکام کے مطابق اس ریڈ لسٹ میں شامل زیادہ تر افراد کا تعلق صوبہ پنجاب کے وسطی شہروں سے ہے جن میں گجرات، گوجرانوالہ اور سیالکوٹ قابل ذکر ہیں۔
ایف آئی اے کے اہلکار کے مطابق ٹریول ایجنٹس اور دوسرے گروہ لوگوں کو یورپی ممالک میں بھیجنے کے لیے بیس سے پچیس لاکھ روپے فی کس کے حساب سے لیتے ہیں اور لوگ بیرون ملک جانے کے لیے خوشی خوشی یہ رقم دینے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔