مشال ارشد سی ایم انڈرگراونڈ نیوز
اسلام آباد: مغربی سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ امریکا نے کبھی پاکستان میں فوجی اڈے نہیں مانگے، پاکستان میں یہ مسئلہ توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے جس پر واشنگٹن میں سب کو حیرانی ہے۔
تفصیلات کے مطابق مغرب کے سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ امریکا نے پاکستان میں کبھی فوجی اڈے نہیں مانگے، مغرب کے ایک سینئر سفارت کار کا اپنا نام ظاہر نا کرنے کی شرط پر کہنا ہے کہ امریکی انتظامیہ میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے جس نے فوجی اڈے کی درخواست کی ہو لیکن اس کے باوجود یہ مسئلہ پاکستان میں توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اس مسئلے پر بحث اور ہیش ٹیگ ایبسولیوٹلی نوٹ مہم کی وجہ سے واشنگٹن میں سب حیران ہیں۔
باوثوق ذرائع کے مطابق امریکا نے باضابطہ طور پر فوجی اڈوں سے متعلق چلائی جانے والی اس مہم پر اپنے تحفظات سے اسلام آباد کو آگاہ کردیا ہے۔
گزشتہ چند ماہ کے دوران جیسے ہی امریکی افواج کے افغانستان سے انخلا کی تاریخ قریب آئی، پاکستان کے پالیسی سازوں کے درمیان یہ بحث شروع ہوگئی کہ امریکا نے مبینہ طور پر پاکستان میں فوجی اڈوں کی درخواست کی ہے۔
نیویارک ٹائمز کی حالیہ رپورٹ کے مطابق سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم جے برنس نے پاکستانی افواج کے سربراہ اور آئی ایس آئی کے سربراہ سے اس موضوع پر براہ راست بات کی تھی۔
تاہم، بات چیت میں اس وقت تعطل آیا جب امریکی حکام کو یہ محسوس ہوا کہ ان کے پاکستانی ہم منصب ہچکچاہٹ کا شکار ہیں، مئی کے مہینے میں وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے پارلیمنٹ میں اعلان کیا کہ وزیراعظم عمران خان جب تک اقتدار میں ہیں اس وقت تک امریکا کو کوئی فوجی اڈہ بنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
تاہم، دی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے ایک سینئر مغربی سفارت کار کا کہنا تھا کہ یہ اس بات کا بتنگڑ بنانے والی بات ہے جو مسئلہ موجود ہی نہیں ہے۔
ان سے جب پاکستان میں پائے جانے والے اس تاثر سے متعلق سوال کیا گیا کہ امریکا نے افغانستان سے نکلنے میں جلد بازی کی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ یہ دوسروں پر الزام عائد کرنے کا ایک حربہ ہے جو کہ افغانستان میں امن و امان کی خراب صورت حال سے متعلق ہے۔
ایک اور سینئر سفارت کار کا کہنا تھا کہ بحث کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ طالبان کابل میں موجودہ حکومت سے سیاسی مفاہمت پر بروقت مذاکرات شروع کرنے میں کیوں ناکام رہے۔
فروری، 2020 میں امریکا اور طالبان کی جانب سے دوحہ معاہدے پر کیے گئے دستخط کے تحت امریکا اور اتحادی افواج کا مکمل انخلا 14 ماہ میں ہونا تھا، اگر طالبان چند شرائط پوری کرتے جن میں القائدہ سے تعلقات ختم کرنا اور افغانستان میں شدت پسند گروپ داعش کو جگہ دینے سے انکار کرنا شامل تھا۔
تاہم، بین الافغان مذاکرات جو کہ دوحہ امن مذاکرات کا حصہ تھے، تعطل کا شکار ہوئے اور گزشتہ ایک سال میں اس میں کوئی قابل قدر پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔
پاکستان کے اعلیٰ فوجی اور سول حکام بار بار یہ کہتے رہے ہیں کہ وہ امریکا کا ذمہ دارانہ انخلا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جلد بازی میں یہاں سے جانا طاقت کا خلا پیدا کرے گا جس کی وجہ سے افغانستان ایک بار پھر خانہ جنگی کا شکار ہوسکتا ہے۔