ملالہ یوسف زئی کی زندگی اور کہانی تو سب کو معلوم ہی ہے اور انٹرنیشنل لیول پہ پاکستان کیخلاف اس نے جو کچھ بولا یا عملی طور پر کیا وہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔
ہاں جی یہ درمیانہ عمر کی متوسط خط و خال کی مالک ایک سٹاف نرس جو ایک اپنے میڈیکل پروفیشن سے ہٹ کر ایک ٹک ٹاکر بھی ہے۔ اس موصوفہ نے 12اور 13اگست کی درمیانی شب اپنے فینز کو ٹک ٹاک ویڈیو کے ذریعے ایک پیغام دیا کہ 14اگست جو کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا یومِ آزادی بھی ہے۔
وہ اس جگہ آئے گی جو تاریخی اعتبار سے پاکستان کیلیے ایک اہم ترین مقام ہے جہاں پر قرارد پاکستان پیش کی گئی اور منظور ہوئی، جی ہاں جس جگہ آج مینار پاکستان کھڑا ہے، جسے گریٹر اقبال پارک کے نام سے لوگ جانتے ہیں۔
وہاں اور بھی سینکڑوں فیملیز آئی ہوئی تھیں ان میں بھی نوجوان لڑکے لڑکیاں تھیں مگر انہوں نے تو نہیں ایک دوسرے کو تنگ کیا نہ ہی کوئی واقعہ رپورٹ ہوا کیونکہ ایسا کچھ ہوا ہی نہیں۔
اب آتے ہیں اصل بات کی طرف کہ ایسا صرف عائشہ اکرم نامی اس خاتون کے ساتھ ہی کیوں ہوا، جی اسکی وجہ مذکورہ بالا سطور میں بتایا ہے کہ موصوفہ نے خود ہی سب کو دعوت عام دی تھی کہ آئیں ہم سب مل کہ اس آزادی کے دن کو مناتے ہیں ، ویڈیوز بناتے ہیں اور سیلفیاں بھی بناتے ہیں۔
مگر اس کے درپردہ پاکستان کو انٹرنیشل سطح پر بدنام کرنے کی ایک مذموم کوشش کی پلاننگ بھی تھی، جس میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی ہو گئی۔
اس میں عینی شاہدین کے مطابق وہ 8 سے 10 لڑکوں کے ہمراہ پارک کے گیٹ ون سے اقبال پارک میں داخل ہوتی ہے اور اس دوران یہ لوگ جو اس کے ساتھ ہوتے ہیں وہ سیلفیاں بھی لے رہے ہیں اور موصوفہ کے گلے میں بازو بھی ڈالے ہوئے ہیں اس کے علاوہ وہ گردونواح کا جائزہ بھی لے رہے ہیں کہ رش کس طرف ہے۔
لہذا وہ سب چبوترے کی طرف آتے ہیں جہاں پلان کے مطابق ساتھ آئے لڑکے چٹ چیٹ شروع کرتے ہیں جس کے دیکھا دیکھی وہاں موجود گیمز کا جم غفیر بھی ٹوٹ پڑتا ہے اور یوں موصوفہ کے ساتھ آئے لڑکے اس کی ویڈیوز ریکارڈ کرتے رہتے ہیں اور تماش بین اوہ سوری موصوفہ کے فینز اسے بال کی طرح ہوا میں اچھالتے رہتے ہیں اور جو کپڑے موصوفہ نے پہنے ہوتے ہیں وہ اس چھینا جھپٹی کے چکر میں تارتار ہو جاتے ہیں۔
اس سارے واقعہ کے بعد موصوفہ اپنے لفنٹر دوستوں کے ساتھ وہاں سے تین ساڑھے تین گھنٹے زدوکوب ہونے کے بعد چلی جاتی ہے، موصوفہ کے بیان کے مطابق وہ ایک میڈیکل ہاسٹل میں رہائش پذیر ہے۔
عائشہ اکرم 15’16’17 اگست کو اپنی روزمرہ کی ہاسپٹل میں ڈیوٹی سر انجام دیتی ہے کسی کو بھی بتائے بنا کے اس کے ساتھ کیا ہوا اور اس دوران بھی وہ سوشل میڈیا پر اپنی تصاویر اور ویڈیوز ڈالتی ہے جیسے کہ کچھ ہوا ہی نہیں۔
اب آتے ہیں دوسرے رخ کی طرف، جی ہاں جس کے لیے یہ سارا ڈرامہ رچایا گیا- 17’18 اگست کی درمیانی شب دو صحافی اقرار الحسن اور یاسر شامی وڈیوز کی چھان بین کرکے کسی طرح سے سوشل میڈیا پر وائرل کروا کے عائشہ کو رات گئے یاسر شامی کے گھر انٹرویو کے لیے بلاتے ہیں وہاں جو کچھ بھی ہوا وہ قارئین اس سے خوب واقف ہیں۔
ان ویڈیوز کا سہارا لے کر نہ صرف پاکستان کے مردوں کو برا بھلا اور بھیڑیا اور بدکردار اور پتہ نہیں کن کن القابات سے نوازا گیا جو یہاں لکھنا مناسب نہیں ہے، بلکہ پاکستان کی پوری دنیا کے سامنے ایسے تصویر پیش کی کہ اس ملک میں عورت محفوظ نہیں ہے یہاں آزادی کے دن اس طرح سے عورتوں پر ظلم وزیادتی کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
یہ خبر راتوں رات انٹرنیشنل میڈیا کی نذر ہو گئی اور پاکستان اور پاکستانی مردوں پہ تھو تھو ہوئی اور ہمارا ازلی دشمن بھی پیچھے نہیں رہا اس نے بھی اپنی کھل کے بھڑاس پاکستان پر نکالی اور رہی سہی کسر موم بتی مافیا تنظیموں نے پوری کر دی۔
مطلب کہ جیسے ملالہ یوسف زئی کے وقت ہوا تھا بالکل اسی طرح ہی اسے پلان کیا گیا اور انٹرنیشنل میڈیا کی ہمدردیاں بٹوری گئیں اور بٹوری جا رہی ہیں۔مگر اب کیا کہیں کہ اس میں کس کا قصور ہے اس میں ہمارا اپنا قصور ہے کہ قانون تو مگر اس پہ عملدرآمد نہیں ہے، اور اس طرح کے گھٹیا لوگ سستی شہرت کے لیے اپنی عزت کے ساتھ ساتھ اپنی ملک و قوم کی عزت بھی داؤ پہ لگا دیتے ہیں صرف چند ٹکوں کی خاطر یہ ٹکے کہ لوگ پیچ دیتے ہیں۔
اب اس وقت پولیس معصوم طلباء کو ان کے گھروں سے اٹھا رہی ہے جس کی وجہ سے ان کا مستقبل تاریک ہو رہا ہے۔
خدارا! پہلے تو اس موصوفہ کو پابند سلاسل کیا جائے اور اس کے ساتھیوں کو جن کا اس نے خود حلفیہ بیان میں درج کیا ہے کہ اس کہ ساتھ 6 سے 8 دوست موجود تھے انہیں بھی شاملِ تفتیش کیا جائے، ان کے پاسپورٹ ضبط کیے جائیں۔
ان کے بینک اکاؤنٹس کی جانچ کی جائے، ان کی کا ریکارڈز کا جائزہ لیا جائے اور ان پر کڑی نظر رکھی جائے بار بار انٹرویوز کروا کر فیم دینے کی بجائے ملکی سالمیت کو بدنام کرنے کی سازش کی دفعات لگا کر ان پر مقدمہ درج کیا اور ان کے سہولت کاروں کو بھی کڑی سے کڑی سزا دی جائے، اور جو اس واقعہ میں ملوث ہیں جن کی واقعی پہچان ہو چکی ہے انہیں بھی کٹہرے میں لایا جائے، تاکہ آیندہ ملکی سالمیت کی کو نقصان پہنچانے کے خیال سے بھی ان کی روح کانپ جائے۔
تحریر:. ڈاکٹر محمد صدیق بابر اعوان