دبئی(بیورورپورٹ)
متحدہ عرب امارات میں یکم جنوری2022 سے ہفتہ میں ساڑھے چار دن کام کیا جائے گا،حکومت نے نئے اوقات کار کے ساتھ ہفتے میں ساڑھے چار دن کام کے اس اقدام منظوری دے دی۔ سرکاری خبررساں ادارے وام کے مطابق نئے اوقات کار کے ساتھ اس اقدام کا اطلاق وفاقی حکومت کے اداروں پر ہوگا ، پیر سے جمعرات تک اوقات کار صبح 7:30 بجے سے شروع ہوکر سہہ پہر 3:30 پر ختم ہوں گے جبکہ جمعہ کے اوقات کار صبح 7:30 سے دوپہر 12:00 بجے تک ہوں گے۔ اس اقدام کے ساتھ ساتھ ملک میں جمعہ کا خطبہ اور نماز دوپہر 1:15 سے ہوں گی۔ سرکاری عملے کو جمعہ کے روز گھر سے کام کرنے کی سہولت کے ساتھ ساتھ وقت کی بنیاد پر اپنے کام کے اوقات کو منظم کرنے کی سہولت میسر ہوگی۔ متحدہ عرب امارات دنیا کا پہلا ملک ہے جس نے عالمی سطح پر پانچ روزپر مشتمل ہفتہ سے نسبتاً چھوٹا ملکی سطح پر ورکنگ ہفتہ متعارف کرایا ہے۔ ویک اینڈ دورانیہ میں توسیع کا یہ فیصلہ زندگی میں توازن اور سماجی بہبود کو بڑھانے کے لیے حکومت کی کوششوں کا حصہ ہے جس سے امارات کی معاشی مسابقت کو فروغ دینے کے لیے کارکردگی میں اضافہ ہوگا۔
کام کے اس تیز نظام کو اختیار کرنے سے امارات ابھرتی ہوئی تبدیلیوں کا مستعد جواب دے سکے گا اور کام کی جگہ پر آسانی اور بہتری میں اضافہ کرسکے گا۔ معاشی نقطہ نظر سے، نیا ورکنگ ہفتہ متحدہ عرب امارات کو عالمی منڈیوں کے ساتھ بہتر طور پر ہم آہنگ کرنے میں مدد دے گا،جو عالمی اقتصادی نقشے پر ملک کی اسٹریٹجک حیثیت کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ ان ممالک کے ساتھ ہموار مالی، تجارتی اور اقتصادی لین دین کو یقینی بنائے گا جہاں اختتام ہفتہ پر ہفتہ اور اتوار کی چھٹی ہوتی ہے، اس سے متحدہ عرب امارات میں کام کرنے والی ہزاروں ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لیے مضبوط بین الاقوامی کاروباری روابط اور مواقع فراہم ہوں گے۔ نیا ورکنگ ہفتہ متحدہ عرب امارات کے مالیاتی شعبے کو عالمی ریئل ٹائم ٹریڈنگ اور کمیونیکیشن پر مبنی لین دین جیسا کہ عالمی اسٹاک مارکیٹوں، بینکوں اور مالیاتی اداروں کے لین دین کے ساتھ بھی قریب کرے گا۔
توقع ہے کہ اس اقدام سے نہ صرف تجارتی مواقع کو فروغ ملے گا بلکہ امارات اپنے شہریوں اور رہائشیوں کو پیش کردہ سہل، محفوظ اور پرلطف طرز زندگی میں بھی اضافہ کرے گا۔ وفاقی اتھارٹی برائے سرکاری انسانی وسائل نے جامع بینچ مارکنگ اور فزیبلٹی اسٹڈیز کے بعد نئے ورک ویک کی تجویز پیش کی تھی جو معیشت، سماجی اور خاندانی تعلقات اور متحدہ عرب امارات میں عوام کی مجموعی فلاح و بہبود پر ممکنہ اثرات کی عکاسی کرتی ہے۔