مصباح لطیف اے ای انڈر گرائونڈ نیوز
اسلام آباد ہائیکورٹ نے وزارتوں اور ماتحت اداروں کے نام پر رئیل اسٹیٹ بزنس کے خلاف کیسز میں حتمی دلائل طلب کرلیے، عدالت نے استفسار کیا کہ کیا حکومتی ادارے بالواسطہ یا بلاواسطہ کوئی بزنس کرسکتے ہیں؟ ساتھ یہ بھی کہا کہ بادی النظر میں وزارتوں اور اُن کے ماتحت اداروں کا رئیل اسٹیٹ بزنس کرنا غیر قانونی ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں وزارتوں اور ماتحت اداروں کے نام پر رئیل اسٹیٹ بزنس کے خلاف کیسز کی سماعت کی اور استفسار کیا کہ کیا سرکاری ادارے اپنے نام کے ساتھ رئیل اسٹیٹ بزنس کرسکتے ہیں؟
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کیس میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا یہ مفادات کا ٹکراؤ ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ ایف آئی اے غیر قانونی سوسائٹیز کیخلاف کارروائیاں کرتی ہے اور خود بھی وہی کام کر رہی ہے، کیا سرکار خود کام نہیں کرسکتی؟ کیا ہر چیز اس عدالت کو آپ کو کہنی ہے کہ یہ کریں
چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے ریمارکس دیئے کہ ریاست خود مجرموں کو تحفظ دیتی ہے، یہاں کرمنل اپیلوں میں یہ نظر آ رہا ہوتا ہے، ریاست خود ان جرائم میں شامل ہے۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ عدالتی ہدایت کے مطابق اس ہفتے کابینہ کو اس سے متعلق سمری بھجوا دیں گے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ یہ عدالت آپ کو بتا رہی ہے اس میں بنیادی حقوق کا معاملہ ہے،اٹارنی جنرل آئندہ سماعت پر 17 جنوری کو حتمی دلائل دیں، ہم قانون کو دیکھ کر کیس کا فیصلہ کریں گے۔
اس موقع پر عدالت نے حتمی دلائل طلب کرتے ہوئے سماعت 17 جنوری تک ملتوی کردی۔