لندن (عارف چودھری)
برطانوی وزیر داخلہ نے پاکستان کیساتھ ۱۷ اگست ۲۰۲۲ میں تحویل مجرمان کا دو طرفہ معاہدہ کرلیا ہے جسکے تحت سزا یافتہ مجرمان یا انڈر ٹرائل ملزمان اور امیگریشن قانون توڑنے والے غیر قانونی طور پر مقیم افراد کو ایک دوسرے کے ملک اسلام آباد اور لندن واپس بھیجا جاسکے گا۔
تارکین وطن کی چارٹرڈ فلائٹ کے زریعے ملک بدری کے معاہدے سابق وزیر داخلہ رحمن ملک کے دور میں بھی زیر بحث اور تنقید کی زد میں رہے جس عمل کو سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے دور میں یکدم روک دیا گیا تھا۔ انسانی حقوق کا کام کرنے والے وکلاء نے ایسے معاہدوں پرتشویش کا اظہارکیاہے ۔
اس کے زریعے کون آئیگا کون جائیگا یہ تو وقت آنے پر دیکھا جائیگا لیکن ابھی تو یہی لگتاہے کہ یہ معاہدہ ان غریب پاکستانیوں پر لاگو ہوگا جنکو جہازوں میں لاد کر اسلام آباد بھیجنے والا آپریشن جو پچھلے کچھ سالوں سے رکا ہوا تھا دوبارہ شروع ہوگا ۔ بدلے میں کیا دے لے رہے ہیں یہ تاریخ ہی بتائے گی یا مغربی میڈیا ہی بتاتا ہے لیکن دستخط کرنے کیلئے وزیر کی بجائے سرکاری افسر بھیجنے سے ازخود سوالات اٹھتے ہیں۔
لیکن یہ بات طے ہے کہ اس معاہدے کے زریعے الطاف حسین ، نواز شریف یا پیپلز پارٹی کے لیڈران تو واپس نہیں لیجائے جاسکیں گے، ہاں حراستی مراکز سے سینکڑوں افراد ٹریول ڈاکیومنٹ پر پاکستان ضرور بھیجے جاسکیں گے تاکہ فائلوں کا پیٹ بھرا جاسکے۔ برطانوی وزیر داخلہ تو پہلے ہی لوگوں کو پناہ کیلئے روانڈا بھیجے کا عندیہ دے رہی ہیں۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔
عمران خان پوری تاب سے میڈیا کے حواس پر چھائے ہوئے ہیں۔ انکی سوشل میڈیا ٹیم پاکستان میں کریک ڈاؤن کے باوجود بیرون ملک سے شور مچا رہی ہے۔ حکومت پی ڈی ایم اور مسلم لیگ نواز انھی تک اسکا متوازن توڑ، جواب یا حل ڈھونڈ نہیں پارہیں۔ مسلم لیگ ن کے پاس نومبر تک ونڈو ہے اسکے بعد نئے سال میں الیکشن فیور سیاسی طور پر ٹیک اوور کرلے گا اور نگرانی کے دورانیہ میں اقدامات کو ریورس ہوتے دیر نہیں لگتی۔ ن لیگ قیادت لائلٹی ٹیسٹ دینے میں مصروف ہے اور پارٹی مسلم لیگ ن وزارت عظمی کے وزن کے نیچے قید میں محسوس ہورہی ہے۔
عمران خان کے دور حکومت میں قید و بند اور نیب بھگتنے والے لیگی لیڈر اور وزیر خواجہ سعد رفیق نے تاریخ الفاظ کہے ہیں کہ ہم جیلوں میں بڑی تکالیف کاٹ کے آئے ہیں ہم نہیں چاہتے آپکی باری آئے.آپ نے ہمیں چور بنایا اس سے پہلےغیر مسلم بنایا آجکل ہم غدار کہلاتے ہیں.اس ملک میں غداری کے سرٹیفیکیٹ کبھی سیاسی جماعتیں نہیں دیا کرتی تھیں تحریک انصاف پہلی سیاسی جماعت ہے جو دوسروں کو غدار کہتی ہے۔مجھے یہ لگ رہا ہے کہ پی ڈی ایم کی حکومت نا محسوس طریقے سے اسی ڈگر پر چل نکلی ہے جسکا اختتام اقدامات کی زمہ داری قبول کرتے ہوئے اقتدار سے بے دخلی پر نکلتا ہے اور اقدار اور اختیار اور ووٹ کی عزت کی باری پھر اگلی ملی کوشش پر منتہج ہوتی ہے۔
حکومت کو اپنی ترجیحات اور قانون سازی پر نظر رکھنی چاہیے ۔ اگلی حکومت اس کو ہی ملنی ہے کس نے ووٹ لینے ہیں۔ کرسی جانے کی دیر ہے ہیرو کو زیرو اور زیرو کو ہیرو بننے میں دیر ناہیں لگتی۔جب ریاستی ادارے بال بیوی بچوں سمیت کسی ایک سیاسی پارٹی کے پلڑے کو بڑا کرنے کے چکر میں اپنا توازن کھو بیٹھیں تو وہی ہوتا ہے جو آج کل دیکھ رہے ہیں۔ تب ہی آئین پاکستان ۱۹۷۳ ریاستی اداروں ،افواج پاکستان ، جوڈیشری بیوروکریسی سول اور ملٹری انتظامیہ کومتوازن اور غیر سیاسی رہنے کی تلقین کرتا ہے۔ عمران خان کا حکومتی زوال سیاست کے طالب علموں کیلئے ایک قابل بحث واقعہ ہے۔
میں شہباز گل کے انٹرویو اور بیانات کم ہی دیکھتا ہو لیکن عمران خان صاحب اپنے چیف آف سٹاف کو چی گویرا کی تصویریں دکھا دکھا کر کھڑا کررہے ہیں کہ جوان بن۔ انہوں نے اپنی زبان سے تحریک انصاف کی لیڈرشپ پر رعب جمانے کیلئے اپنے ہم عصروں سینیرز جونئیرز کی خوب درگت بنائی، نیوٹرل کے لاڈ اور پیار کو مستقل سمجھتے ہوئے سینکڑوں دشمن بنائے اور جب لاڈ پیار ختم ہوا تو انکی بے رخی اب ناقابل برداشت ہے۔
حق تو یہی ہے کہ جتنا صفائی کا موقعہ عمران خان حکومت نے نواز شریف,مریم نوازشریف,شہباز شریف ،رانا ثناءاللہ ،حنیف عباسی، خواجہ سعد رفیق، میاں جاویدلطیف یا قمر الاسلام کو دیا ہے،کم ازکم اتنا تو حق بنتا ہے شہباز گل صاحب کا۔ طاقتوروں کا بھی اس سے سلوک اتنا ہی ہونا چاہیے جتنا بزرگ راہنما جاوید ہاشمی سے خط لہرانے پر ہوا۔ لیکن ہم میں اور ان میں کوئی تو فرق ہونا چاہییے اور فرق اقدار کا ہی ہوتا ہے۔بزرگ صحیح فرماتے ہیں کہ کرسی مستقل نہیں اور بندہ جہاں بھی جاتا ہے اپنی زبان کا کھٹیا کھاتا ہے۔ تب ہی بزرگ اکثر مشورہ دیتے ہیں پہلے تولو پھر بولو ۔
حکومت سے یہی درخواست ہے کہ تفتیش کے دوران شخصی آزادیوں اور فیئر ٹرائل کے مندرجات کا خیال رکھا جائے کیونکہ آج یہ جو آزادیاں مانگ رہے ہیں کل ہم مانگ رہے تھے ۔ کل ہم محفوظ ممالک میں جان بچا رہے تھے ، اب یہ برطانیہ امریکہ سے پناہ مانگتے پھریں گے ۔ وقت کا پہیہ بہت ظالم ہے گھوم کے وہیں آجاتا ہے اور ادھار نہیں رکھتا۔
جن لوگوں نے مسلم لیگ ن کو اقتدار سے بے دخل کیا اور پانامہ سے اقامہ تک دربدر اور خوار کیا ان پر نظر ، انکی جواب دہی اور انکا ہاتھ روکنا ہی جمہوریت اور بیانئے کی جیت ہوگی لیکن لیٹی ہوئی مختلف جماعتوں پر مشتمل اتحادی حکومت توسیع پر توسیع تو دے سکتی ہے مضبوط اور بہادر فیصلے نہیں کرسکتی۔
انکی نظر مینڈیٹ کی کمی کی وجہ سے شارٹ ٹرم مقاصد پر تو ہوسکتی ہے نوابزادہ نصراللہ خان کی بزرگ نظر کی طرح مخالف کی آخری چال پر نظر ہر گز نہیں ہوگی۔سیاست اور تجارت میں یہی فرق ہے۔ آخر میں جمہوریت ، شخصی آدازیوں کی کمزوری اور انصاف کے نظام کی ابتری پر کف افسوس ہی ملا جاسکتا ہے کیونکہ تنقید نگار یہ کہہ کر چل نکلتے ہیں کہ چلے چلو کہ منزل ابھی نہیں آئی۔
عمران خان کی گرفتاری اور پرچوں کی خبریں ہیں۔ اس پر حکومت کو بہت احتیاط سے سیاسی قانونی اور مستقبل کے مضمرات مدنظر رکھ کے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ میثاق جمہوریت کے بعد پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دور میں سیاسی بنیاد پر بنائے گئے مقدمات کی تعداد اور قید و بند میں بہت کم لوگ رلھے گئے۔ میڈیا کے بارے میں برداشت کا مظاہرہ کیا گیا۔عمران خان بھی اگر اداروں سے پنگا لیتے ہیں تو توہین عدالت یا بغاوت کی سازش پر فوجی ایکٹ کے تحت کورٹ مارشل کے ہتھیار موجود ہیں۔ سیاستدانوں کو اپنی لڑائی الیکشن کی پچ پر لڑنی چاہیے۔
انکا ایک ایک قدم الیکشن لے میدان میں نتائج دکھاتا ہے۔ تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو۔ عمران کی گرفتاری اسے مزید مقبول اور مشہور کرے گی جسکا نقصان صرف مسلم لیگ ن کو پنجاب میں ہوگا جس ووٹ کو توڑنے کیلئے وزیراعلی پنجاب ایکشن میں ہیں۔ میری نظر میں نواز شریف ان سب کو الیکشن کے میدان میں فیئر فائٹ کے زریعے شکست دے سکتے ہیں ۔ انکی واپسی مسلم لیگ ن کیلئے ٹارزن کی واپسی ہوسکتی ہے ۔
لیکن ایسی فیئر الیکشن کی سوغات اسٹیبلشمنٹ کو کہاں سوٹ کرتی ہے جو کچھ دے دلا کر کچھ دینے کی اتنی عادی ہوچکی ہے کہ اقتدار بھی بھیک میں دیتی ہے کہ کوئی قد سے بڑھ کر بڑھکیں نہ مارنا شروع کردے۔ نواز شریف تو پہلے ہی افورڈ نہیں ہورہا تھا اب عمران خان سونے پر سہاگہ ہے۔
ان میں سے کون غدار اور ہتک عزت کا حقدار ٹھہرے گا یہ تو وقت بتائے گا لیکن سیاست دانوں کو سیاست سے اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت اور اثر و رسوخ کم کرنے کیلئے مثبت اقدامات کرنے کا جتنا اہم وقت یہ ہے کوئی نہ ہوگا۔ میثاق جمہوریت ، میثاق معیشت اور میثاق انصاف یہ سب کر ڈالنے کا وقت ہے اور سب سے بڑھ کر سچ کمیشن تاکہ ماضی کی حمود الرحمن کمیشن میں نشاندہی شدہ غلطیوں سے سبق سیکھا جاسکے۔ جو پچھلے معاہدوں کا پاس نہ کرسکے وہ اب اپنے وعدوں پر ڈیلیور کریں گے یہ خام خیالی ہی ہے اور بے دل سیاست کی کم سنی ، کمزوری اور خود غرضی ہے اور کچھ نہیں۔
عمران خان نے تیزی سے پینترا بدلتے ہوئے نواز شریف کا سارا بیانیہ اپنا لیا ہے۔ ووٹ کو عزت ، سیاست سے فوج کی نے دخلی ، نیوٹرل کا وعدوں کی پاسداری اور انکی خوب دھلائی گوجرانوالہ میں کی گئی تقریروں کا اثر ژائل کرچکی ہے۔ضمنی انتخابات میں پہ در پہ شکست کارکردگی پر سوالیہ نشان لگا رہی ہے کہ مسلم لیگ ن حکومت میں آکر جیت رہی ہے یا ہار رہی ہے۔
قبل از وقت حکومتی تبدیلی عمران خان کو مظلوم اور ساری کارکردگی کی زمہ داری موجودہ حکومت پر ڈال چکی ہے جنہوں نے ایک چلتی جمہوریت جمہوری طریقے سے فارغ کی۔ عوام سوچتے ہیں کہ وہ کونسی گیدڑ سنگھی تھی جس کی ایماء پر حکومت تبدیل کی اور اب اس چمتکار کی تلاش جاری ہے۔اگر مسلم لیگ ن اپنے قائد میاں نوازشریف کو باعزت واپس نہیں لا پا رہی اور اگر سینیٹر اسحق ڈار مریم نواز شریف کیساتھ ملکر پارٹی کو متحرک نہیں کرتے تو مسلم لیگ ن کو اس حکومت کا کیا فائدہ ہورہا ہے جو اگلے انتخابات میں چھن بھی سکتی ہے کیونکہ دلہن وہ جو پیا من بھائے۔
ضمنی انتخابات کے نتائج دیکھ کر ڈر لگ رہا ہے کہ یہ نہ ہو مسلم لیگ ن اور اتحادی جماعتیں دوسروں کے لئے ادھاری خدمت کرتے کرتے حکومت میں ہوتے ہوئے اپنے بیانئے سے ہاتھ دھو بیٹھیں ۔ ووٹ کو عزت دو وزیراعظم نواز شریف کا مشہور زمانہ بیانیہ تھا اور ہے ۔
عمران خان نے اسے ڈینٹ کیا ہے یہ کہ کر آؤ اب ووٹ کو عزت دو۔ بعض تنقید نگاروں کو سارا معاملہ ایکسٹینشن دو ایکسٹینشن لو والا لگ رہا ہے اور اس حکومت کو دیر یا بدیر اسے بھی ڈیل کرنا ہوگا۔ مشتری ہوشیار باش کا ہی مشورہ باعمل ہے ۔ جب تک مسلم لیگ کی لیڈرشپ حکومت میں ہے پارٹی کو مکمل طور پر حکومت سے علیحدہ الیکشن اور جواب دہی اور عوامی رابطہ سازی اور خدمت کا ٹاسک نہیں دیتی پارٹی حکومت کے نیچے دبی اور چھپی رہے گی۔
اس کام کا پاکستان میں سیلاب میں مدد، سوشل میڈیا کانفرنسز اور تنظیم نو سے آغاز کرنا چاہیے۔ سوشل میڈیا کا مقابلہ چینلوں کی بندش سے نہیں دو بدو مقابلے میں ہے۔ یہ مقابلہ کل کو انتخاب کے وقت بھی کرنا پڑے گا۔ نگران حکومت کسی کی نہیں ہوتی۔ ہم چینل عارضی طور پر بند نہیں کرسکتے اور کسی بھی چینل کا بائیکاٹ کسی طور سیاسی پارٹی کے مفاد میں نہیں۔پینل تشکیل دیں پراپیگینڈے کا مقابلہ کریں۔حکومت میں اپوزیشن کومیدان کھلا کبھی نہیں دیا جاتا۔چپ رہیں یا جواب دیں۔ فیس بک، ٹویٹر ، یوٹیوب ، انسٹاگرام یا ٹک ٹاک بند کرنا ایسے ہی ہےجیسے ہمارے پاس کہنے کے لئے کچھ نہیں یا لوگ دستیاب نہیں ہیں، یا حکومت میں آنے سے طلب لگن اور محنت کو دیمک لگ گیا ہے۔
تحریک انصاف کو مالی تعاون کا اور سوشل میڈیا کابڑا حصہ اوورسیز سے نمودار ہوتا ہے۔ انہوں نے حکومت میں زلفی بخاری کے سوا کسی کو قابل زکر طور پر نہیں نوازا۔ اوورسیز میں مسلم لیگ ن نے ہمیشہ اوورسیزکا خیال رکھا ہے لیکن اسے ہمیشہ کیش کروانے میں ناکام رہی ہے۔ مسلم لیگ ن نے اپنی حکومتوں میں وفاقی وزیر،وزیر مملکت،اوورسیز کوآرڈینیٹر مقرر کیا، اوورسیز پاکستانی فاونڈیشن کا چیئرمین مقرر کیا، افضال بھٹی کو کمشنر او پی سی پنجاب اور خالد شاہین بٹ کو وائس چیئرمین دو بار مقرر کیا گیا تاکہ اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل کا حل نکالا جاسکے۔
گلف سے نورالحسن تنویر اور احسان باجوہ کو ایم این اے ، امریکہ سے کیپٹن شاہین بٹ کو سینیٹر، جرمنی سے رانا لیاقت علی کو ممبر صوبائی اسمبلی اور بعدازاں وزیر بنایااور برطانیہ سے راجہ جاوید اقبال کو ممبر قانون ساز اسمبلی آزاد کشمیر بنایا اور زبیر گل وزیراعظم کے مشیر بنے لیکن پھر بھی ان تمام مراعات کے باوجود قابل نوٹس فائدہ اٹھایا نہیں جاسکا۔ ابھی تک پڑھا لکھا طبقہ اوورسیز میں شنوائی کا شکوہ کرتا ہے۔
اس دفعہ مخلوط حکومت میں آنے کے بعد گرچہ اسحق ڈار صاحب نے تیس سے زیادہ ملکوں میں تنظیم نو کی ہے لیکن تارکین وطن کے حل طلب معاملات شیلف ہیں۔ نہ ہی انکی سیٹوں کے معاملے پر قانون سازی سامنے آئی ہے اور نا ہی ان سے متعلقہ محکموں کے بورڈ اور ایڈوائزری تشکیل دی گئی ہے اور تو اور اوورسیز کی اسلام آباد انٹرنیشنل کانفرنس سابق وزیراعظم عمران خان سے لیکر موجودہ وزیراعظم میاں شہباز شریف تک بیوروکریسی کے ہاتھوں شٹل کاک بنی ہوئی ہے۔ حکومت کے پاس وقت نہیں ہے اور تارکین وطن کے پاس آواز نہیں ہے ۔ بدقسمتی سے یہ پہاڈ اور کھائی والی صورت حال ہے۔ اللہ خیر کریں۔
وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف کی جانب سیلاب متاثرین کی فوری بحالی کیلئے مالی امداد کا اعلان بروقت ہے اور قابل تحسین بھی۔ پچیس ہزار روپے فی خاندان مالی امداد سے پندرہ لاکھ خاندانوں کے نوے لاکھ لوگ مستفید ہوں گے۔ نیشنل ڈس آسٹر مینجمنٹ کو پانچ ارب کی ادائیگی کردی گئی ہے۔ چار سو ترانوے لوگوں کو شہید ہونے پر دس لاکھ روپے دینے کا اعلان ہوا ہے اور سروے مکمل ہونے پر پانچ لاکھ فی گھر مرمت اور تعمیر کیلئے دیے جائینگے۔
کنگ سلمان ہیومینٹیرین ایڈ اینڈ ریلیف سنٹر نے پاکستان میں سیلاب سے متاثرہ افراد کیلئے ہنگامی امداد کے تحت 950 ٹن اشیائے خوردونوش کے 100 ٹرک روانہ کر دیئے اس غذائی پیکج سے 70 ہزار سے زائد افراد مستفید ہونگے۔ باقی ممالک بھی سیلاب کی تباہ کاریوں پر اپنے سفارت خانوں سے رپورٹ لے رہے ہیں۔
ایسے میں حکومت پاکستان کا سیلاب زدہ علاقوں کی بحالی کے لیے ڈونر کانفرنس منعقد کرنے کا فیصلہ خوش آئیند ہے۔ اس سے بین الاقوامی اداروں کو ملک میں سیلاب کی تباہ کاریوں پر بریفنگ دی جاۓ گی ، اور انہیں وفاقی و صوبائی حکومتوں کی جانب سے جاری ریلیف اور بحالی کی کاوشوں سے آگاہ کیا جاۓ گا۔ سیلاب زدگان کی مدد ریاست, حکومت سیاستدان اور تمام اداروں کی اولین ترجیح ہونی چاہیے ۔ ہمارے بھائیوں بہنوں کے گھر سیلاب میں بہہ رہے ہیں ۔
ہمارے اپنے پانی میں بہہ رہے ہیں ۔ جاگو پاکستان کیونکہ پاکستان پھر منجھدھار میں گھرا پڑا ہے۔ سیاست اور نوکری ہوتی رہے گی۔ پاکستان میں آئین،انصاف اور قانون کے راج اور گورننس سے بھرپور جمہوریت کیلئے پرچی کاصحیح استعمال کریںں اور اسکی حفاظت کریں ،ملک کی آبیاری کریں یہ اللہ تعالی کا دیا ہوا یہ ایک عظیم تحفہ ہے- آزادی اور شخصی آزادیاں ایک انمول نعمت ہے اسکی قدر اور احساس ہر شہری کیلئے از حد ضروری ہے۔ اے پاک وطن۔ اے پاک زمین ، تیرا دن موتی تیری رات نگین ۔
بیرسٹر امجد ملک
بیرسٹر امجد ملک ہیومن رائٹس کمیشن اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن پاکستان کے تاحیات اعزازی ممبر ہیں اور برطانیہ میں ایسوسی ایشن آف پاکستانی لائرز کے موجودہ چیئرمین ہیں۔