(مصباح لطیف اے ای انڈر گراؤنڈ نیوز)
اسلام آباد: نگران حکومت پیٹرولیم مصنوعات کی درآمد کےلیے ڈالرز کے انتظام میں گومگو کی کیفیت کا شکار ہے کیونکہ اسلامی ترقیاتی بینک کے سینڈیکیٹڈ 3.3 ارب ڈالر کے قرض پر 10 فیصد سود ادا کرنا ہوگا۔ چین اور سعودی عرب کو بھی سود دینا ہے۔
سعودی عرب سے مؤخر ادائیگیوں پر تیل کی درآمد کا سمجھوتہ دسمبر میں ختم ہونے پر نئی درخواست کرناہوگی اور یہ سب کچھ ہو بھی ایک ایسے وقت میں رہا ہے جب عالمی منڈی میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہورہاہے۔
ڈالروں کی آمد میں قلت کا سوال یہیں ختم نہیں ہوتا کیونکہ حکومت کو سعودی عرب سے مؤخرادائیگیوں پر تیل کی سہولت برقرار رکھنے کےلیے موجودہ سمجھوتہ دسمبر 2023 میں ختم ہونے کے بعد پھر سے درخواست کرنا ہوگی۔
سعودی عرب اب تک مارچ سے اگست تک 600 ملین ڈالر دے چکا ہے جب کہ 400 ملین ڈالر رواں برس دسمبر کے آخر تک متوقع ہے۔
پاکستان کی آئل کی بڑی کمپنیاں 100 ملین ڈالر کا خام تیل ماہانہ بنیادوں پر خریدتی ہیں اور پھر سعودی حکام کو اس بارے میں بتایا جاتا ہے اور حکومت پاکستان کو اس کی رقم ملتی ہے۔
اب وزارت خزانہ نے تیل کی بڑی کمپنیوں سے مشاورت کی ہے تو انہوں نے اسلامی ترقیاتی بینک سے 2023 سے 2025 تک کےلیے سینڈیکٹ فنانسنگ کی تجویز دی ہے کیونکہ داخلی اور غیر ملکی منڈیوں میں انہیں دستیاب فنانسنگ کی لاگت اسلامی ترقیاتی بینک کے سود سے بڑھ رہی ہے ۔
اسلامتی ترقیاتی بینک سے مجموعی طور پر 3.6 ارب ڈالر کا قرض طے ہوا ہے جس میں سے 300 ملین ڈالر کی فنانسنگ براہ راست ہوگی جب کہ 3.3 ارب ڈالر کی باقی ماندہ رقم کا انتظام بین الاقوامی بینکوں کی سینڈیکیٹ فنانسنگ کے ذریعے ہوگا۔
ایک اعلیٰ ذریعے نے دی نیوز کو تصدیق کی ہے کہ رواں مالی سال میں ڈالر ز کی ملک میں آمد کا تخمینہ 17.7 ارب ڈالر ہے جبکہ باہر جانے والی رقم کا تخمینہ 19.1 ارب ڈالر کے آس پاس ہے ۔ اس طرح 1.4 ارب ڈالر کا خلا بنتا ہے۔
سرکاری ذرائع نے وضاحت کی کہ باہر جانے والی رقم 19.1 ارب ڈالر کے تخمینے میں سے 7 ارب ڈالر چین اور سعودی عرب سے ملنے والے قرض کے رول اوور پر سود کی ادائیگیوں پربالترتیب 256 ملین ڈالر اور 126 ملین ڈالر خرچ ہوں گے۔
لیکن تفصیلات میں ایک چکر اور ہے اور وہ یہ کہ اگر صورتحال کا تجزیہ کیاجائے تو وزارت خزانہ کا کمرشل قرضوں کا تخمینہ 4.5 ارب ڈالر ہے اور اس میں سے دو ارب ڈالر موجودہ مالی سال میں آئی ایم ایف سے حاصل کیے جائین گے۔