مصبا ح لطیف (اے ای انڈرگرائونڈ نیوز)
اسلام آباد: پاکستان اور امریکا کے مابین تعلقات اس وقت تعطل کا شکار ہو گئے جب عمران خان نے گزشتہ سال 27 مارچ کی اپنی تقریر میں کاغذ کا ایک ٹکڑا لہرایا جس میں یہ الزام عائد کیا گیا کہ امریکا انہیں سیاسی مخالفین کے ذریعے پیش کی جانے والی عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے اقتدار سے ہٹانے میں ملوث ہے۔
ایف آئی اے کی جانب سے وزارت خارجہ اور وزیر اعظم آفس کے متعلقہ حکام کے انٹرویوز سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک موقع ایسا بھی آیا کہ دونوں ملکوں کے درمیان کوئی رابطہ نہیں رہا۔
تفتیش سے وابستہ ایک عہدیدار نے مختلف سفارتکاروں کے بیانات کے متعلق اپنی معلومات کی بنیاد پر امریکا کے حوالے سے بتایا کہ “انہوں نے ہمارے ساتھ بات چیت بند کر دی۔‘‘ عمران خان کی جانب سے کاغذ لہرائے جانے کے واقعے کے بعد امریکا نے پاکستان سے تحریری طور پر کہا کہ حکومت پاکستان یہ سائفر امریکا کے ساتھ شیئر کرے۔ ایف آئی اے کی جانب سے ریکارڈ کیے گئے ایک بیان کے مطابق، امریکی حکام اس بات پر مشتعل اور حیران تھے کہ اگر خفیہ رابطہ کاری ایسے عوامی گفتگو کا موضوع بننے لگی تو پھر کوئی کھلی بات چیت نہیں ہوگی۔
اتفاق سے عمران خان نے اس وقت تک براہ راست امریکا کا نام نہیں لیا تھا لیکن ان کے قریبی حلقوں کی طرف سے بیانات سامنے آنے لگے تھے۔ اس صورتحال پر پریشان وزارت خارجہ نے وزیر اعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کیلئے ایک ایڈوائزری نوٹ جاری کیا جس میں اس طرح کی رابطہ کاری کے تقدس اور سیاسی مقاصد کیلئے اس کے استعمال کے اثرات پر زور دیا گیا۔
نوٹ میں بتایا گیا کہ سائفر کے ساتھ کھیلنے کے پاک امریکا تعلقات پر سنگین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ تاہم، ایڈوائزری نوٹ قیادت کی سطح پر پالیسی تبدیل کرنے میں ناکام رہا۔ اس کے بجائے، وزارت خارجہ سے کہا گیا کہ وہ مبینہ سیاسی مداخلت پر امریکا کو ڈیمارش جاری کرے۔