Reg: 12841587     

جسٹس اعجاز کا دور تنازعات سے بھرپور، استعفیٰ بہت سے سوال چھوڑ گیا

مصبا ح لطیف (اے ای انڈرگرائونڈ نیوز)

اسلام آباد: عدالت عظمیٰ کے سینئر ترین جج جسٹس اعجاز الاحسن کا استعفیٰ بہت سے جواب طلب سوال چھوڑ گیا ہے کیونکہ ان کا دور تنازعات سے بھرپور تھا۔

ان تنازعات میں پاناما پیپرز کیس کی احتساب عدالت کی نگرانی سے لے کر تقریباً ہر سیاسی جماعت کے مقدمات سننا، گرینڈ حیات ٹاور کیس کی سماعت پر اعتراضات اور جسٹس مظہر اکبر نقوی کو سپریم جوڈیشل کونسل سے بچانے کی کوششوں جیسے معاملات شامل ہیں۔ 

جب سے جسٹس میاں ثاقب نثار نے چیف جسٹس کا حلف لیا تھا جسٹس اعجاز الاحسن ہر اہم مقدمے کی سماعت کرنے والے بینچ کا حصہ رہے ہیں۔ حتیٰ کہ سپریم کورٹ کے ججوں نے اس وقت بھی بینچوں کی کمپوزیشن میں ججوں کی شمولیت کے حوالے سے متعدد خط لکھے تھے کہ دیگر ججوں کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔

بہت سی سیاسی جماعتیں بشمول پیپلزپارٹی، ن لیگ اور جمعیت علمائے اسلام(ف) نے کھلے عام جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظہر علی اکبر نقوی کی شمولیت پر اعتراضات کیے تھے۔

نوازلیگ نے بالخصوص ان دوججوں پر اعتراضات کیے تھے اور پارٹی قیادت کے خلاف ان کے تعصب کو نمایاں کیا تھا۔پارٹی کے رہنما ؤں نے سینئر ججوں کی غیر جانبداری کے حوالے سے سوالات اٹھائے تھے اور ایک درجن سے زائد ایسے حوالے دیے تھے جن میں جسٹس اعجاز الاحسن نے نوازشریف اور شہباز شریف کیخلاف فیصلے دیے تھے۔

فروری 2023 میں اس وقت کے وزیرداخلہ راناثنا اللہ نے ایک پریس کانفرنس میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظہر علی اکبر نقوی پرالزامات عائد کیے تھے کہ وہ نواز لیگ کے خلاف تعصب رکھتے ہیں اور انہوں نے مطالبہ کیا تھا کہ نوازلیگ کی قیادت کے حوالے سے مقدمات سے انہیں دور رکھا جائے۔ تاہم ان تحفظات کے باوجود انہون نے اپنے آپ کو کبھی ان بنچوں سے الگ نہیں رکھا انہوں نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں سوموٹو لیے تھے۔

اس وقت کے وزیرداخلہ راناثنا اللہ نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ جسٹس اعجاز الاحسن نگراں جج کے طور پر پارٹی قائد نوازریف کے خلاف کیس کی نگرانی گرتے رہے اور ان سے انصاف کی توقع نہیں ہے۔

یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ پاناما پیپرز سننے والے سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ کی سربراہی جسٹس آصف سعید کھوسہ کر رہے تھے اس میں جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس گلزار احمد، جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس اعجاز الاحسن شامل تھے جنہوں نے نوازشریف کو عمر بھر کےلیے نااہل کیا تھا۔

بینچ نے جسٹس اعجاز الاحسن کو ٹرائل کورٹ کی نگرانی کےلیے نگراں جج مقرر کیا تھا۔ نگراں جج لگانے کا فیصلہ عدالتی دائرہ کار میں ایسا تھا جس کی پہلے کوئی نظرنہٰن تھی۔

پاناما پیپرز کیس میں جے آئی ٹی کا رکن وٹس ایپ کے ذریعے مقرر کرنے کی سازش بھی شامل تھی۔

چند منتخب عہدیداروں کو سپریم کورٹ کے پاناما بینچ کی ہدایات پر مختلف محکموں سے چنا گیا تھا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نےتقریباً ہر مقدمے میں نوازشریف اور شہباز شریف کے خلاف فیصلہ دیا اور ان میں پاناما پیپرز کے علاوہ پارٹی قیادت کا کیس، پاکپتن زمین الاٹمنٹ کیس اور رمضان شوگر ملز کیس وغیرہ شامل ہیں۔

اسی طرح گرینڈ حیات ٹاور کیس مین جسٹس اعجاز الاحسن کی شمولیت پر وکلا نے سوال اٹھایا تھا۔ ان وکلا کےمطابق جسٹس اعجازالاحسن گرینڈ حیات ٹاور بنانے والی کمپنی کے لیگل ایڈوائزر تھے۔ مفادات کے اس واضح ٹکراؤ کے باوجود انہوں نے اپنے آپ کو بینچ سے نہیں نکالا اور بالآخر اپنی کلائنٹ کمپنی کے حق میں فیصلہ دیا۔

حال ہی میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس اعجاز الاحسن کے مابین اس وقت ایک تنازع ہوا جب بینچوں کی تشکیل اور ان میں سینئر ججوں کی شمولیت کا معالہ زیر غور آیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے چیف جسٹس کو ایک خط لکھاجس میں انہوں نے بینچوں کی تشکیل سے متعلق اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ان کے خدشات پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس اعجاز الاحسن کے الزامات حقائق اور ریکارڈ کے خلاف ہیں۔ ہمیں چھ دنوں کی تنخواہ ملتی ہے ساڑھے چار دن کام کرنے کی نہیں۔ یہ چیف جسٹس نے اس وقت لکھا جب انہیں اطلاع ملی کہ جمعہ کی سہ پہر کو جسٹس اعجاز الاحسن لاہور روانہ ہوگئے تھے۔

مزیدبرآں ایک اور تنازع اسوقت ابھر کر سامنے آیاجب جسٹس اعجاز الاحسن کو سپریم جوڈیشل کونسل کا رکن کے رکن کی حیثیت سے جسٹس مظہر اکبر نقوی کو شاکاز نوٹس جاری کرنے کی مخالفت کی اور اسے ایک عاجلانہ، گیر ضروری اور طے شدہ قانونی معیارات کے خلاف قرار دیا۔

تاہم ان کی مخالفت اور تحفظات کے باوجود سپریم جوڈیشل کونسل نے اپنے ساتھی جج کو شوکاز نوٹس جاری کیا۔ مختصر بات یہ ہے کہ جسٹس اعجاز الاحسن نے سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے اپنے عرصے میں تنازعات کا شکار رہے۔

جسٹس ثاقب نثار سے لے کرکر جسٹس عمر عطا بندیال کے عرصے تک جسٹس اعجازالاحسن ہراہم کیس کا حصہ ہوتے تھے تاہم جسٹس عمر عطا بندیال کی ریٹائرمنٹ اور سپریم کورٹ کے پریکٹس اینڈ پروسیجر بلز کےنفاذ کے بعد اگرچہ بینچوں کی تشکیل کے حوالے سے ان سے مشاورت کی جاتی تھی لیکن اس کے باوجود انہوں نے شکایت کی اور چیف جسٹس کو خط لکھا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Previous Post

ٹرمپ نے عدالت میں جج کوڈانٹ دیا، مؤکل کو سنبھالو ، جج کی وکیل کو تنبیہہ

Next Post

مسلم ممالک کی خاموشی اسرائیل کی طاقت ہے: امیر جماعت اسلامی کراچی

Related Posts
Total
0
Share