(اسلام آباد سے ھیڈ آف نیوز منتظر مہدی)
سپریم کورٹ نے این اے 75 ڈسکہ ضمنی انتخاب دوبارہ کرانے کیخلاف اپیل پر سماعت کے موقع پر پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار کی ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن کافیصلہ معطل کرنے کی استدعا مسترد کرتے ہوۓ قرار دیا کہ ہم فیصلے کو ایسے معطل نہیں کر سکتے، الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے،آئینی اداروں کا احترام کرتے ہیں،صورتحال کو واضح کرنے کے لیے انتحابی حلقہ کا مکمل پولنگ اسٹیشنز کے مطابق نقشہ بنا کر دیں,عدالت کے سامنے سوال شواہد کے میعار اور قانون کی خلاف ورزیوں کا ہے،آئین کے تحت حلقہ میں ازاد شفاف مصنفانہ اور قانون کے مطابق الیکشن کروانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے,سپریم کورٹ نے اس موقع پر الیکشن کمیشن سے حلقہ میں اخراجات سے متعلق تفصیلات طلب کرتے ہوۓ معاملہ کی سماعت 19 مارچ تک کے لئے ملتوی کر دی ہے۔معاملہ کی سماعت جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی۔دوران سماعت پی ٹی آئی کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ حلقے میں دوبارہ انتخابات کرانے کے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو معطل کیا جائے،پولنگ کی تاریخ پنجاب حکومت کی درخواست پر آگے بڑھائی گئی،الیکشن کمیشن کی ہدایت پر حلقے میں کچھ تبادلے اور تقرریاں ہونی ہیں۔الیکشن کمیشن کے وکیل نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ این اے 75 ڈسکہ میں 360پولنگ اسٹشن ہیں،حلقے میں کل رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد چار لاکھ ہے،337پولنگ اسٹیشنز کے فارم 45 وصول ہوئے تھے، 23 پولنگ اسٹیشنز کے فارم 45 صبح ساڑھے چار بجے تک بھی وصول نہیں ہوئے،ہوم ڈیپارٹمنٹ کی رپورٹ کے مطابق حلقہ کے حالات اب بھی پہلے والے ہیں،ہوم ڈیپارٹمنٹ کی رپورٹ پر پولنگ کی تاریخ میں توسیع کی گئی، امن وامان کے حوالے سے الیکشن کمیشن نے ائی جی پنجاب سے رپورٹ بھی طلب کی،آئی جی پنجاب نے تاحال اپنا جواب داخل نہیں کرایا،رپورٹ کے مطابق فائرنگ،فساد کے باعث حلقہ میں دہشت پھیلی۔جسٹس عمر عطا بندیال نے اس موقع پر ریمارکس دئیے ہیں کہ ہم فیصلے کو ایسے معطل نہیں کر سکتے، الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے،آئینی اداروں کا احترام کرتے ہیں،الیکشن کمیشن نے انتخابی شیڈول آگے کر دیا ہے ،شاید انہوں نے اسی کیس کی وجہ سے پولنگ کی تاریخ میں توسیع کی،دوبارہ الیکشن تو ہو گا،دیکھنا یہ ہے کہ محدود پیمانے پر یا پورے حلقے میں دوبارہ الیکشن کرانا ہے،ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن کے احکامات یونہی معطل نہیں کرینگے،معاملے کا ہر پہلو سے جائزہ لیں گے، دیکھنا ہو گا کیا آئی جی پنجاب نے الیکشن کمیشن میں جواب جمع کرایا ہے؟کیا الیکشن کمیشن نے آئی جی پنجاب کو توہین کا نوٹس جاری کر دیا ہے، الیکشن کمیشن کے فیصلہ میں بہت ساری باتوں کی نشاندہی کی گئی ہے،الیکشن کمیشن کے فیصلہ کے مطابق پولیس کی عدم موجودگی سے بعض پولنگ اسٹیشنز پر تشدد ہوا، وکیل پاکستان تحریک انصاف پہلے الیکشن کمیشن کا جواب پڑھ لیں،جہاں تک مجھے یاد ہے ہائی کورٹ کے دور میں ایک قومی اسمبلی کی نشست پر الیکشن کمیشن کا کروڑوں روپے خرچ آتا تھا،الیکشن کمیشن ضرور بتائے قومی اسمبلی کے ایک حلقے میں کتنے اخراجات آتے ہیں۔جسٹس مظاہر علی نقوی نے ایک موقع پر ریمارکس دئیے کہ کیا تشدد والی ویڈیوز الیکشن کمیشن میں پیش کی جاسکتی تھی، یہ کیسا پتہ چلایا گیا کہ ویڈیوز اسی حلقہ کی ہیں،دیکھنا ہو گا کہ مذکورہ ویڈیوز کس نے بنائیں؟کیا ویڈیو اور واٹس ایپ کی بنیاد پر الیکشن کمیشن نے فیصلہ کیا؟یہ ویڈیو والا کلچر ختم ہونا چاہیے،ہر کسی کی آتے جاتے چلتے ہوئے ویڈیوز بنالی جاتی ہے،بتائیں کونسا الیکشن ان واقعات کے بغیر ہوتا ہے؟ان واقعات کو تو الیکشن کلچر بھی کہہ سکتے ہیں۔جسٹس قاضی امین نے ایک موقع پر ریمارکس دئیے کہ پولنگ اسٹیشنز پر تشدد ہوا کنٹرول کرنا انتظامیہ کی ذمہ داری تھی،مختصر فیصلہ ہائیکورٹس یا سپریم کورٹ دیتی ہیں،چیف الیکشن کمشنر جج نہیں ہے،ہم الیکشن کی ویڈوز کو مکمل نظر انداز نہیں کرسکتے۔وکیل علی اسجد ملہی نے موقف اپنایا کہ الیکشن کمیشن نے تشدد لڑائی جھگڑے کی بنیاد پر ری پولنگ کا حکم دیا،الیکشن کمیشن نے 23 پولنگ اسٹیشنز کے نتائج کی تصدیق کے لیے امیدواروں کو نوٹس جاری کیا، ڈی ار او نے رپورٹ میں سول انتظامیہ پر کوئی الزام نہیں لگایا،الیکشن کمیشن نے مختصر فیصلہ سے ری پولنگ کا حکم دیا،مختصر فیصلہ صرف اعلی عدالتیں دیتی ہیں، الیکشن کمیشن کو 4 مارچ کو پورے حلقے میں دوبارہ الیکشن سے متعلق مختصر فیصلہ سنانے کی کیا عجلت تھی،8 مارچ کو ایک ہی بار تفصیلی فیصلہ کیوں نہیں دیا گیا،25 فروری کے بعد الیکشن کمیشن نے کوئی مزید انکوائری نہیں کی،معاون وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ن لیگ کے وکیل سلمان اکرم راجا کورونا کا شکار ہو گئے ہیں، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ سلمان اکرم راجا کو سنے بغیر فیصلہ نہیں کریں گے۔بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے الیکشن کمیشن سے حلقہ میں اخراجات سے متعلق تفصیلات طلب کرتے ہوۓ معاملہ کی سماعت 19 مارچ تک کے ملتوی کر دی ہے