مشال ارشد (سیالکوٹ)
کوئی مانے یا نہ مانے لیکن 10اپریل 2021ءکو ڈسکہ والوں نے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ اس دن قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 75میں ایک ضمنی الیکشن تھا لیکن اس ضمنی الیکشن پر پورے پاکستان کی نظریں مرکوز تھیں۔ ضمنی الیکشن میں حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف اور اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) ایک دوسرے کے مدمقابل تھے لیکن حقیقت میں یہاں ریاست کے قانون کا ریاست کی دہشت سے مقابلہ تھا۔
19فروری کو یہاں مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی سید افتخار الحسن شاہ کی وفات کے باعث ضمنی الیکشن ہوا تھا لیکن اس دن ریاست کے قانون کی دھجیاں بکھیر دی گئیں۔ قانون کو تار تار کرنے کی گواہی خود الیکشن کمیشن آف پاکستان نے دی کیونکہ پنجاب کی بیوروکریسی اور پولیس نے حکمران جماعت کے امیدوار علی اسجد ملہی کا کھلم کھلا ساتھ دیا۔
19فروری کے دن ڈسکہ کے مختلف پولنگ اسٹیشنوں پر تمام دن فائرنگ کی گئی تاکہ مسلم لیگ (ن) کے ووٹر خوفزدہ ہو کر بھاگ جائیں اور ریاستی مشینری آسانی سے اپنے امیدوار کو جتوا سکے۔ تمام دن فائرنگ سے کام نہ بنا تو پھر رات کو چھائی دھند سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی گئی۔
بیس سے زائد پولنگ اسٹیشنوں کے پریذائیڈنگ افسروں کو ایک جگہ پر اکٹھا کرکے انتخابی نتائج تبدیل کیے گئے اور حکمران جماعت کے امیدوار علی اسجد ملہی نے خود ہی اپنی کامیابی کا اعلان کر دیا لیکن الیکشن کمیشن نے نتیجہ روک لیا اور یہ تحقیق کی کہ بیس سے زائد پریذائیڈنگ افسران تمام رات کہاں غائب رہے؟
الیکشن کمیشن کو پتہ چل گیا کہ ان پریذائیڈنگ افسران نے نتائج تبدیل کئے تھے لہٰذا الیکشن کمیشن نے این اے 75میں دوبارہ ضمنی الیکشن کا اعلان کردیا۔ حکمران جماعت نے ایک طرف الیکشن کمیشن کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا اور دوسری طرف وزیراعظم عمران خان نے الیکشن کمیشن کے خلاف ایک تقریر کر دی۔
پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ایک وزیراعظم نے الیکشن کمیشن پر دھاندلی کا الزام لگایا۔ سپریم کورٹ میں حکومتِ وقت نے الیکشن کمیشن کو جھوٹا ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن آخر کار حکومت وقت ہار گئی اور سپریم کورٹ نے این اے 75میں ضمنی الیکشن کرانے کا فیصلہ برقرار رکھا۔
10اپریل کو این اے 75میں حکمران جماعت کے علی اسجد ملہی جیت جاتے تو الیکشن کمیشن کی پوزیشن مشکوک ہو سکتی تھی لیکن صاحبزادہ افتخار الحسن شاہ کی بیٹی نوشین افتخار نے علی اسجد ملہی کو ہرا دیا۔ یہ صرف نوشین افتخار کی فتح نہیں تھی بلکہ الیکشن کمیشن بھی سرخرو ہو گیا۔ ریاستی دہشت کے مقابلے پر ریاست کا قانون جیت گیا۔ 10اپریل کو ڈسکہ میں دھند نہیں تھی لیکن اقتدار کے نشے میں مست کچھ طاقتور لوگوں کے ذہنوں پر بدستور دھند چھائی ہوئی تھی۔
انہوں نے ایک دفعہ پھر اسلحے کی نمائش کے ذریعہ اپنی دہشت قائم کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ 19فروری کو ہونے والی ریاستی دہشت گردی کے باعث ڈسکہ میں خوف و ہراس کی فضا قائم تھی اور 10اپریل کو بہت سے لوگ اسی خوف کے باعث ووٹ ڈالنے کے لئے گھروں سے نہیں نکلے لیکن جو گھروں سے نکلے انہوں نے دھند اور دہشت دونوں کو شکست دی۔ دھند اور دہشت کو شکست دینے پر ڈسکہ کے بہادر لوگ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ ڈسکہ ایک تاریخی شہر ہے۔ جو گوجرانوالہ اور سیالکوٹ کے درمیان واقع ہے۔ عوامی روایت کے مطابق گوجرانوالہ، سیالکوٹ، پسرور، وزیر آباد اور ایمن آباد سے ڈسکہ کا فاصلہ دس دس کوس بنتا ہے اس لئے اسے ’’دس کوہا‘‘ قرار دیا گیا جو بعد میں ’’ڈسکہ‘‘ بن گیا۔ حکومتی ترجمانوں کا کہنا ہے کہ ڈسکہ کی نشست تو پہلے ہی مسلم لیگ (ن) کے پاس تھی۔ مسلم لیگ (ن) نے ضمنی الیکشن جیت کر اپنی نشست کو برقرار رکھا ہے تو کوئی کمال نہیں کیا۔
حکومتی ترجمان کچھ بھی کہیں لیکن عام لوگ جانتے ہیں کہ ڈسکہ میں اصل مقابلہ نوشین افتخار اور علی اسجد ملہی کا نہیں بلکہ نواز شریف اور عمران خان کا تھا۔ عمران خان مرکز اور پنجاب میں حکمران ہونے کے باوجود ہار گئے اور نواز شریف جلاوطن ہونے کے باوجود جیت گئے۔ 2018کے عام انتخابات میں نواز شریف کے امیدوار صاحبزادہ افتخار الحسن شاہ نے ایک لاکھ اٹھارہ ہزار اور علی اسجد ملہی نے 61ہزار ووٹ لئے تھے۔
ان انتخابات میں اس حلقے سے ایک آزاد امیدوار عثمان خالد نے 57ہزار ووٹ لئے تھے۔ اس مرتبہ یہ آزاد امیدوار اور ان کے والد بابا جی خالد محمود مکی مدنی بھی علی اسجد ملہی کی حمایت کر رہے تھے لیکن یہ حمایت بھی کام نہ آئی اور ڈسکہ کے دیوانوں نے اس نواز شریف کے بیانیے کو ووٹ دیا جسے کچھ محبِ وطن لوگ آج کل غدار کہا کرتے ہیں۔ یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ کم ٹرن آئوٹ کے باوجود نوشین افتخارنے ایک لاکھ 10ہزار سے زیادہ ووٹ لئے اور علی اسجد ملہی بھی 93 ہزار ووٹ نکال گئے۔
انہوں نے 2018کے الیکشن کے مقابلے میں کم از کم 32ہزار ووٹ بڑھائے ہیں۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ انہیں 32ہزار اضافی ووٹ عثمان خالد کی وجہ سے پڑے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ انہوں نے اپنا ووٹ بنک قائم رکھا ہے، اس میں اضافہ نہیں کیا۔ این اے 75میں مسلم لیگ(ن) کی کامیابی کا ملک کی مجموعی سیاسی صورت حال پر بھی اثر پڑے گا۔
ایک طرف تو مسلم لیگ (ن) کی کامیابی کا کراچی کے حلقہ این اے 249میں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار مفتاح اسماعیل کو فائدہ ہوگا دوسری طرف تحریک انصاف کے اندر جہانگیر ترین گروپ کا حوصلہ بھی بلند ہوگا۔
جہانگیر ترین فی الحال عمران خان سے براہِ راست محاذ آرائی کی بجائے مفاہمت کا راستہ تلاش کر رہے ہیں لیکن وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کے خلاف کارروائی کی وجہ نہ تو وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان ہیں اور نہ ہی شہزاد اکبر ہیں، یہ کارروائی براہِ راست عمران خان کے حکم پر ہو رہی ہے کیونکہ پی ڈی ایم کے اختلافات میں عمران خان اپنی نئی طاقت تلاش کر رہے ہیں۔ وہ اپنے کچھ ساتھیوں کا احتساب کرکے اس ساکھ کو بچانا چاہتے ہیں جو تیزی سے گرتی جا رہی ہے۔
جہانگیر ترین کے معاملے پر عمران خان کے لئے یوٹرن لینا مشکل ہے اور جہانگیرترین عبرت کی مثال بن گئے تو اس کے بعد اپوزیشن کے خلاف ایک بڑا آپریشن ہوگا۔ عمران خان جولائی 2021میں آزاد کشمیر کا الیکشن جیتنے کے لئے اپنی کھوئی ہوئی مقبولیت کی بحالی چاہتے ہیں کیونکہ انہیں پتہ چل چکا ہے کہ دھند اور دہشت ہمیشہ کام نہیں آتی۔