تحریر: حکیم ریحان سالک
قریباً دو سال ہو گئے ہیں، یقین کریں جب سے ایلوپیتھک گولیوں سے جان چھڑائی ہے، زندگی میں ایک سکون سا ہے اور بدن میں راحت۔ خاص طور سے اینٹی بایوٹک ادویہ تو جسم کی خاص دشمن ہیں۔ ہر جسم کا اپنا ایک قدرتی مدافعتی نظام ہوتا ہے جو ہر بیماری کے خلاف محاذ بنا لیتا ہے اور آخر جیت جاتا ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ اس کا بیڑہ غرق کیسے ہوتا ہے؟
اول نمبر پہ ناقص غذائیں ہیں، جن کی ایک لمبی فہرست ہے۔ میرے ذہن میں جو ہیں وہ نیچے لکھ دیتا ہوں۔۔ آپ اگر اپنی ذات سے مخلص ہیں (جو کہ یقیناً آپ نہیں ہیں) تو بازاری کھانوں کے چسکوں سے حتمی پرہیز کرنا پڑے گا۔ یہ جو ہم کہتے ہیں کہ جی میں نے باہر سے فلاں چیز کھائی اور مجھے کچھ نہیں ہوا، تو صاحب! آپ کچھ عرصہ صبر کر لیں اور استقامت سے ہوٹلوں کی دعوتیں اُڑا لیں۔
قوتِ مدافعت میں کمزوری ایک دم سے نہیں آتی بلکہ رفتہ رفتہ یوں آتی ہے کہ اچانک کسی دن انکشاف ہوتا ہے کہ جی میرا بی پی نارمل نہیں ہے، مجھے قبض ہے، مجھے زیادہ تھکاوٹ ہوتی ہے، میرے گھٹنوں میں درد ہے، میرا سر دُکھ رہا ہے اور میرے گلے کا کیرا نہیں رُک رہا وغیرہ۔ پھر آپ کلینک پہ بھاگتے ہیں اور ٹیسٹس کراتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ آپ کا لیور فنکشن ڈسٹرب ہے، کولیسٹرول بڑھ چکا ہے، شوگر لیول نارمل نہیں ہے، یورک ایسڈ میں گڑبڑ ہے، بلاکیج ہو رہی ہے یا معدے کا انفیکشن ہو چکا ہے وغیرہ۔
اس موقع پہ بہت کم ڈاکٹرز ایسے ہوتے ہیں جو فارماسوٹیکل مافیا کی بجائے مریض کے ساتھ مخلص ہوتے ہیں اور اسے ایک آدھ ضروری/ایمرجنسی ٹکیہ کے ساتھ متناسب غذائی پلان بتاتے ہیں۔ لیکن نہیں، بلکہ اس کے لیے الگ سے نیوٹریشنسٹ موجود ہیں جن کی ہدایات پہ عمل کرنے کا تکلف کون کرتا ہے؟ ایک خدا ترس ڈاکٹر کبھی بھی غیرضروری ادویہ نہیں لکھتا بلکہ خوراک اور ورزش پہ فوکس کراتا ہے۔
خیر سے ہمارے بیشتر مریض بھی ڈیڑھ پڑھے لکھے ہوتے ہیں۔ اگر ڈاکٹر لمبا نسخہ نہ لکھے تو اس کی قابلیت پہ شک کرنا ہماری قومی وبا ہے۔ مجبوراً وہ خانہ پُری کو کئی ملٹی وٹامنز لکھ دیتے ہیں کہ آخر انہوں نے ہرصورت مریض کی نفسیات کو مطمئن کرنا ہوتا ہے۔
اب ہم غذائی پلان پہ آتے ہیں۔۔۔ اس میں سرفہرست باہر کے کھانے مکمل چھوڑ دینا ہے۔ جو کچھ کھانا ہو، یوٹیوب سے ترکیب دیکھیں اور گھر پہ تیار کریں۔ ظاہر ہے ابتدا میں اس میں مشقت ہو گی، پھر عادت بن جائے گی۔ گھر میں سب سے پہلے کوکنگ آئل بدلیں، سرسوں کے تیل میں کھانے بنائیں۔
دیسی گھی اپنے مستقل استعمال میں لائیں۔۔ اسنکی ماہانہ لگ بھگ قیمت اتنی ہے جتنے آپ لیبارٹری ٹیسٹس اور چیک اپ فیس پہ لگاتے ہیں۔ پچھلے دو برسوں میں مَیں نے ایک روپیہ بھی ان دو جگہوں پہ نہیں دیا الحمدللہ۔ تمام پیکڈ جوسز، کولڈ ڈرنکس پہ پکی بندش لگا دیں۔ فریش جوسز، لسی اور ستو پئیں۔ مختلف قہوے پئیں۔ آپ بیکری شاپ پہ جائیں اور جو کچھ وہاں بِک رہا ہے اس سے اجتناب کریں، یہ سبھی کچھ مضرِ صحت ہے۔۔ جام اور مربہ جات بآسانی گھر بن سکتے ہیں۔ ڈبے کا دودھ جب الٹرا ہائی ٹمپریچر سے گزرتا ہے اس کی تمام غذائیت جل جاتی ہے۔ اب یہ صرف سفید محلول ہے جسے گاڑھا، لذیذ اور دیرپا محفوظ کرنے کیلئے کیمیکلز اور پریزرویٹوز شامل کیے جاتے ہیں۔ تھوڑی سی تکلیف کریں اور جا کر بھانے سے دودھ لے آئیں، ابالیں اور پئیں۔
چینی کی بجائے گُڑ/شکر/شہد لیں۔ آٹا خالص گندم کا استعمال کریں۔ روز کوئی ایک فروٹ کھائیں۔ تلی ہوئی چیزیں آہستہ آہستہ چھوڑنی ہوں گی۔ آیوڈین ملا نمک سخت نقصان دہ ہے۔۔ خواہ لوگ کچھ دلائل دیں، برائلر چکن چھوڑ دیں۔ اپنے بچوں پہ پابندی لگا دیں کہ دکان سے پاپڑ، نمکو، چپس، ٹافی، سلانٹی، چاکلیٹ، جوس، برگر، شوارما، پیزا وغیرہ کچھ بھی نہیں خریدنا۔
الحمدللہ میرے بچے پیسے مانگتے ہیں اور نہ ڈیپارٹمنٹل سٹورز سے کچھ خرید کر کھاتے ہیں۔ یہ باتیں ان کو باقاعدہ سمجھائی گئی ہیں، کوئی زور زبردستی نہیں کی گئی اور یہ سارا پراسس ایک ہی دن میں نہیں ہو جاتا۔ پہلے خود عمل کرکے دکھانا ہوتا ہے۔ روٹین بدلنے پہ وقت لگتا ہے، فیملی کی ذہن سازی کرنا پڑتی ہے۔
آرگینک غذاؤں کے لیے زیادہ خرچہ اور زیادہ محنت درکار ہوتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ دنیا میں سب سے زیادہ انسویسٹمنٹ کا حقدار میرا جسم ہے اور میری فیملی۔ خواہ انہیں گاڑی، کوٹھی، برانڈڈ پہناوے اور جدید موبائل میسر نہ ہوں، لیکن ان کی فزیکل فٹنس ضرور برقرار ہو۔ غذائی حوالے سے میرے پاس اور بھی بہت کچھ ہے لکھنے کو، لیکن ابتدائی پلان یہی ہے جو لکھ دیا ہے۔
آنے والا دور قدرتی غذائیت کے لحاظ سے بہت بڑا چیلنچ ہے۔۔ لوگ خالص کھانے کو ترسیں گے۔ اس کے لیے ابھی سے کچھ سوچ لیں کہ آپ نے اپنے دفاعی نظام کو طاقتور رکھنے کے لیے کیا کرنا ہے؟ درست فیصلہ ہمارے سچے ارادے پر منحصر ہے۔ وبائی امراض کے سامنے ڈٹ کے صرف وہی ٹھہر سکے گا، جس نے وقت سے پہلے اپنے جسم کو مضبوط کر لیا ہو گا۔