مشال ارشد سی ایم انڈرگراونڈ نیوز
امریکا کے صدر جوبائیڈن اپنے روسی ہم منصب ولادیمرپوٹن سے آج جنیوا میں ملاقات کررہے ہیں۔ بحثیت صدریہ روسی ہم منصب سے ان کی پہلی ملاقات ہے۔ آٹھ برسوں میں اتنا کچھ ہوچکا ہے کہ ماحول آج آخری لمحات تک کشیدہ ہے ، یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ یہ سربراہ ملاقات کسی سفارتکاری سے زیادہ کشتی جیسی صورتحال کی عکاس بنی ہوئی ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا بائیڈن پوٹن ملاقات کے نتیجے میں امریکا روس کشیدگی کم ہوگی یا مزیدبڑھے گی؟ اور یہ بھی کہ جس ولادیمرپوٹن کو جوبائیڈن قاتل قرار دے چکے ہیں،آخر اس شخص سے ملنےکا انہوں نے فیصلہ کیاہی کیوں؟ مگر پہلے یہ دیکھ لیتے ہیں کہ دونوں رہ نماؤں نے ملاقات کے لیے جنیوا کا انتخاب کیوں کیا؟
سوئٹزرلینڈ عشروں سے منفرد سفارتکاری اپنائے ہوئےہے۔ اسے امریکا کا اس قدر اعتماد حاصل ہے کہ سوئٹزرلینڈ ہی تہران میں امریکا کے مفادات کی نمایندگی بھی کرتا ہے۔ ساتھ ہی یہ ملک روس کے اتنا قریب ہے کہ دیگر مغربی ممالک نے امریکا کی پاسداری کرتے ہوئے ماسکو پر پابندیاں لگائیں تب بھی سوئٹزرلینڈ نے روس کیخلاف ایسا قدم نہیں اٹھایا۔
35 برس پہلے یہ جنیوا ہی تھا جس نےامریکا کے سابق صدر رونلڈ ریگن اور سابق سوویت یونین کے سربراہ میخائل گورباچوف کی تاریخی ملاقات کی میزبانی کی تھی۔ وہ سربراہ ملاقات سردجنگ کے خاتمے کاجشن تھی ۔ اس کے برعکس بائیڈن پوٹن ملاقات ایک ایسے وقت ہورہی ہے جب ایک سرد جنگ ماسکو اور واشنگٹن جبکہ دوسری بیجنگ اور واشنگٹن کےدرمیان جاری ہے۔
یہ سربراہ ملاقات ایک ایسے موقع پر بھی کی جارہی ہے جب روس اورچین کے درمیان پینگھیں بڑھ رہی ہیں اور دونوں ملک مل کر امریکا کے نئے ورلڈ آڈرکو چیلنج کررہے ہیں۔ اورکیوں نہ ہو ، دونوں ملک یہ محسوس کرتے ہیں کہ امریکا ان کی ترقی کی راہ میں روڑے اٹکارہا ہے اور داخلی معاملات میں مداخلت کررہاہے۔
اس کے برخلاف امریکی انٹیلی جنس کو سچ مان لیں تو نوبت یہ آچکی ہے کہ روس ، امریکا کےصدارتی انتخابات میں مداخلت کرتاہے۔ امریکی دعویٰ ہےکہ ماسکو نے 2016 میں سوشل میڈیا کے ذریعے ڈیموکریٹ ہیلری کلنٹن کو صدر بننے میں ناکام بنایا اور 2020 میں یہ کوشش دہرائی تاکہ ڈونلڈٹرمپ کے مقابلے میں جو بائیڈن کو نیچا دکھایا جائے اور انہیں صدر بننے سے روکا جاسکے۔
روس کے صدر نےان الزامات کو ہمیشہ مستردکیا ہے اور ایک بار تو وہ جوبائیڈن کو براہ راست مباحثہ کا چیلنج بھی دے چکے ہیں ۔ایک ایسا براہ راست مباحثہ جو ممکنہ طورپر کشتی کا سامنظرپیش کرتا۔
ایسامباحثہ کبھی ہونےکا امکان ہی نہیں۔ امکان اس بات کا بھی نہیں کہ صدر جوبائیڈن امریکا کی سابق وزیرخارجہ ہلیری کلنٹن کی پیروی کریں گےجنہوں نے اپنے روسی ہم منصب سرگئی لاوروف کوملاقات میں پیلے رنگ کا ایک ڈبہ دیا تھا جو دوطرفہ تعلقات ٹھیک کرنے کی علامت بننا تھا۔
سن 2009میں تحفتاً دیے گئے اس چھوٹے ڈبے پر لال بٹن تھا اور ایک روسی لفظ کندہ کیاگیا تھا۔ مگر قسمت پھوٹی تھی جو لفظ ‘ری سیٹ ‘ کا ترجمہ روسی زبان میں کرنے والے شخص نے اسے’ ازسرنوترتیب ‘ کی بجائے’بہت زیادہ بوجھ’ کردیا۔ شومئی قسمت ہوا بھی کچھ ایسا ہی ۔سن 2011 میں شام کے معاملے پر دونوں ملک ایک دوسرے کیخلاف صف آرا ہوگئے اور پھر کریمیا کے معاملے پر رہی سہی کسر بھی نکل گئی۔
ماسکو نے محض کریمیا ہی پر اپنے پنجوں کا اثرنہیں دکھایا بلکہ امریکا کے اتحادی یورپی ممالک سے تجارتی خصوصا پیٹرولیم کے میدان میں تعلقات مضبوط کرنا شروع کردیے۔ گیارہ ارب ڈالر مالیت کی نارڈ اسٹریم ٹو گیس پائپ لائن امریکا کوچڑانے اور یوکرائن کے سینے پر مونگ دلنے کا زریعہ بن گئی۔روس کو چونکہ امریکا کی بڑھتی پابندیوں کا سامنا ہے اس لیے صدرپوٹن نے اپنی معیشت کو ڈالر سے آزادکرنے کاایجنڈہ بھی تیزکردیا اور یورپ کوبھی شہہ دی کہ وہ ڈالر چھوڑ کر روس سے یورو میں تجارت کرے۔
صدرپوٹن نے یہ اقدامات ایسے وقت کیے جب ایک اور ابھرتی ہوئی عالمی طاقت چین نے ون بیلٹ ون روڈ گرینڈ پراجیکٹ کے ذریعے یورپ کے اٹھارہ ممالک کو اپنے ساتھ ملا لیا ہے۔ ان میں وہ اٹلی بھی شامل ہے جو امریکا کے خاص الخاص اتحادیوں یعنی جی سیون ممالک میں سے ایک ہے۔
جی سیون ممالک کی کارنوال میں حالیہ میٹنگ اور اس کے بعدبرسلز میں امریکا یورپی یونین اور نیٹو سربراہ اجلاس درحقیقت روس اور چین ہی کو پیغام تھے۔اپنے دورے میں امریکی صدر بیجنگ اور ماسکو پر واضح کرنےکی کوشش میں نظرآئے کہ یورپی ممالک اگرکسی کے ساتھ ہیں تو وہ صرف امریکا ہے۔
امریکا کے سابق صدر رچرڈنکسن زندہ ہوتے توشاید وہ جو بائیڈن کو سفارتکاری کے کچھ ایسے گر سکھاتے جن کا انہوں نے اپنےدور میں عملی مظاہرہ کیا تھا۔ نکسن پہلے صدر تھے جو بیجنگ بھی گئے اور ماسکو بھی۔ وہ زندہ ہوتے تو بائیڈن کو شاید اسی طرح فون کرتے جیسے انہوں نے بائیڈن کی پہلی بیوی کے مرنےپر تعزیت کے لیے کیاتھا،وہ بائیڈن کو بتاتے کہ کس طرح سے چین اور روس کے درمیان خلیج بڑھائی جاسکتی ہے یا کم سے کم ایک کو اپنے قریب کیا جاسکتا ہے۔
مشورے شاید اس لیے بھی ضروری تھے کہ کشیدگی اس حد تک ہے کہ بائیڈن پوٹن ملاقات کا تو ایجنڈہ تک ترتیب نہیں دیا جاسکا۔ہوتا تو یہ ہے کہ دونوں ممالک کے سفیر دن رات ایک کرتے ہیں،وزارت خارجہ، وزارت دفاع اور وزارت تجارت عرق ریزی کرتی ہیں تب جاکر مفاہمت کی یادداشتیں تیار کی جاتی ہیں اور پھر صدور ان پر دستخط کرتے ہیں، یہاں تو مختلف الزامات کے سبب روس پرپابندیاں لگائی گئیں اور سفیروں کوگھرلوٹنا پڑا۔
نتیجہ یہ کہ ایجنڈے کی بجائے بات چیت کے لیے چند موٹے موٹے نکات رکھ لیے گئے ہیں جن میں اسٹریٹیجک اسٹیبلیٹی ، علاقائی تنازعات، سائبر سیکیورٹی، ماحول اور اقتصادی امور شامل کیے گئے ہیں۔
باریک بینی سے دیکھا جائے تو اسکطا مطلب یہ نکالا جاسکتا ہےکہ دونوں رہ نما تخفیف اسلحہ پر بات کریں گے اور علاقائی تنازعات میں لیبیا، شام،افغانستان اور یوکرائن جیسے ممالک کی صورتحال پر بات ہوگی، ایران کے نیوکلیئر پروگرام پر بھی تبادلہ خیال ہونے کاامکان ہے۔
ان میں سے بعض امور اس قدر حساس ہیں کہ اگر کوئی صحافی جلتی پرتیل کاکام کرنےمیں کامیاب ہوتو مشترکا پریس کانفرنس سفارتی کشتی میں بدل جائے۔ شاید یہی وجہ ہےکہ سربراہ ملاقات کے بعد مشترکا پریس کانفرنس کی بجائےدونوں صدور میڈیا سے علیحدہ علیحدہ بات کریں گے۔یہ بھی کیا کم ہے کہ ملاقات سے پہلے دونوں طرف سے الفاظ کی گولہ باری روک دی گئی ہے۔
تو کیا اس سربراہ ملاقات سے امریکا اپنے حریف روس کے ساتھ مستحکم اورممکنات پرمبنی تعلقات قائم کرنے میں کامیاب ہوجائے گا؟شاید اس کاانحصار اس بات پر ہے کہ امریکا علاقائی اورعالمی سطح پر روس کو کتنی جگہ دینے کو تیار ہے۔
کہتے ہیں اگرآپ ریچھ کےقریب ہوں اورچاہتے ہوں کہ وہ آپ کو نقصان نہ پہنچائے تو پھر اس کی حدود کا خیال رکھیں۔ لیکن اگر آپ نےیہ ٹھان لی ہو کہ کچھ ایسا کیا جائے کہ ریچھ کو اپنے اعمال کی قیمت چکانا ہی پڑے تو پھرٹاکرے کےلیے خود کوبھی تیارکرلیں۔