یو یارک: نو منتخب امریکی صدر جوبائیڈن کی انتظامیہ نے نے کہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں افغان طالبان کے ساتھ کی جانے والی امن ڈیل پر نظر ثانی کی جائے گی۔
امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے کہا ہے کہ وہ یہ جاننا چاہتی ہے کہ افغان طالبان نے دوحہ امن ڈیل کی شرائط پر کس حد تک عمل کیا ہے۔ وائٹ ہاؤس کے قومی سکیورٹی کے مشیر جیک سولیوان نے اپنے افغان ہم منصب سے ٹیلی فونک گفتگو میں یہ بھی واضح کیا کہ اس بات کا جامع تجزیہ ضروری ہے کہ سابق امریکی حکومت اور طالبان کے مابین طے پانے والی اس ڈیل کی نکات کیا ہیں اور ان پر عمل درآمد کس طرح ہو سکتا ہے۔
ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ سولیوان نے واضح کیا ہے کہ فروری 2020ء میں امریکا اور طالبان کے مابین دوحہ امن ڈیل پر نظر ثانی کے علاوہ اس بات کا تجزیہ بھی کیا جائے گا کہ اس معاہدے کے بعد طالبان تشدد میں کتنی کمی لائے ہیں، اس گروہ نے دیگر انتہا پسند گروپوں سے اپنے رابطے کس حد تک ختم کیے ہیں اور اس نے افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کی خاطر کیا اقدامات کیے ہیں۔
سولیوان کے مطابق ڈیل کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ طالبان اس ڈیل کے تحت طے پائے جانے والے سبھی نکات کا احترام کریں۔ امریکی صدر جو بائیڈن کے اعلیٰ سفارت کار نے یہ بھی کہا کہ وہ افغانستان میں 20 سالوں سے جاری جنگ کو ہمیشہ کے لیے ختم کرتے ہوئے اپنے فوجیوں کی وطن واپسی چاہتے ہیں۔
اس وقت افغانستان میں تعینات امریکی فوجیوں کی تعداد اڑھائی ہزار ہے، جو 2001ء میں افغان جنگ شروع ہونے کے بعد سے وہاں متعین امریکی فوجیوں کی کم ترین تعداد ہے۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے امن ڈیل کے تحت عہد کیا تھا کہ وہ افغانستان سے اپنے فوجیوں کو واپس لے آئے گی۔
گزشتہ برس 29 فروری کو طے پانے والی دوحہ امن ڈیل کے تحت افغان طالبان نے یہ بھی تسلیم کیا تھا کہ وہ افغانستان کی سرزمین پر انتہا پسند گروپوں کو اپنی کارروائیوں سے روکیں گے، اپنے حملوں کو ختم کریں گے اور کابل حکومت کے ساتھ امن مذاکرات کا سلسلہ شروع کریں گے۔
اس امن ڈیل کے تحت البتہ طالبان اور کابل حکومت کے مابین امن مذاکرات کا سلسلہ ابھی تک شروع نہیں ہو سکا ہے۔ ادھر افغان صدر اشرف غنی کے مشیر وحید عمر کا کہنا ہے کہ طالبان نے ابھی تک اپنے حملوں میں کمی نہیں کی ہے بلکہ اس میں اضافہ کر دیا ہے۔ کابل کا یہ الزام بھی ہے کہ طالبان قومی سطح پر امن مذاکرات شروع کرنے میں بھی ناکام رہیں ہیں۔