مصبا ح لطیف (اے ای انڈرگرائونڈ نیوز)
اسلام آباد: ایک ایسے موقع پر جب عام انتخابات میں 6 ہفتوں سے بھی کم وقت رہ گیا ہے، سیاسی صورتحال میں تیزی آتی جا رہی ہے اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) جسے انتظامی طور پر دبایا جا رہا ہے، بظاہر انتخابی دنگل میں واپسی کی تیاریاں کر رہی ہے۔
ایسی خبروں کی موجودگی میں کہ پارٹی کو عوامی اجتماعات اور سیاسی ریلیاں کرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی، پی ٹی آئی کو عدالتوں سے بڑے ریلیف مل رہے ہیں جو پارٹی، اس کی قیادت اور کارکنوں کیلئے باعث تقویت ثابت ہو رہے ہیں، جنہیں 9؍ مئی کے بعد سے سنگین نوعیت کے قانونی اور فوجداری نوعیت کے مقدمات کا سامنا ہے۔
مسلم لیگ نون کو کئی لوگ ’’کنگز پارٹی‘‘ سمجھ رہے ہیں لیکن انتخابات کے اتنا قریب ہونے کے باوجود یہ جماعت خوابیدہ نظر آ رہی ہے۔ حالانکہ توقع تھی کہ 9 مئی کے بعد زیر کی گئی تحریک انصاف کے مقابلے میں نون لیگ اپنی دھاک بٹھانے میں کامیاب ہوجائے گی لیکن تاحال ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔
مبینہ انتظامی حمایت کے باوجود نون لیگ کو عوام کو متحرک کرنے کیلئے ابھی اپنی انتخابی مہم شروع کرنا ہے۔ لگتا ایسا ہے کہ جس وقت نون لیگ کسی ’’انجینئرڈ معجزے‘‘ کا انتظار کر رہی ہے، اس وقت پی ٹی آئی کی قیادت اور اس کے کارکنان کو عدالتوں کے کچھ حالیہ فیصلوں کی وجہ سے بڑا حوصلہ ملا ہے۔
سائفر کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے اور الیکشن کمیشن کی جانب سے پی ٹی آئی کے انتخابی نشان ’’بلے‘‘ کی واپسی کیخلاف پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے نے پی ٹی آئی قیادت اور کارکنوں میں ایک نئی روح پھونک دی ہے۔ جمعرات کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر کیس میں عمران خان کی درخواست پر 11 جنوری تک حکم امتناع کی منظوری دیدی۔
سائفر کیس میں سپریم کورٹ کے ریلیف کے بعد پی ٹی آئی رہنماؤں کو ڈر تھا کہ عمران خان کو ٹرائل کورٹ کسی بھی وقت سزا سنا سکتی ہے۔ لیکن اب اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم امتناع کے بعد پی ٹی آئی ٹرائل میں تاخیر حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ پی ٹی آئی کی قانونی ٹیم سرگرمی کے ساتھ کوشش کر رہی ہے کہ عمران خان کی توشہ خانہ کیس میں سپریم کورٹ سے سزا ختم کرائی جائے۔
سپریم کورٹ نے بدھ کو یہ معاملہ سماعت کیلئے اٹھایا تھا لیکن ججوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے فیصلہ ہوا کہ ججوں کی چھٹیوں سے واپسی پر یہ کیس اٹھایا جائے گا۔ اگر سپریم کورٹ نے عمران خان کی توشہ خانہ کیس میں سزا ختم کر دی تو پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین عام انتخابات میں حصہ لینے کے اہل ہو جائیں گے۔
پی ٹی آئی رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ انہیں عوام کے ایک بڑے حصے کی حمایت حاصل ہے اور اگر عام انتخابات میں بیلٹ پیپر پر بلے کا نشان ہوگا تو پارٹی کے ووٹرز سرپرائز دے سکتے ہیں۔ اور اگر عمران خان کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت مل گئی تو الیکشن میں پی ٹی آئی کی جانب سے کوئی بڑا سرپرائز دینے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔
9مئی کے بعد پارٹی کے خلاف کریک ڈاؤن کے بعد عام طور پر یہ قیاس کیا جارہا تھا کہ پی ٹی آئی کو عام انتخابات کیلئے امیدواروں کی تلاش میں مشکلات کا سامنا رہے گا لیکن پی ٹی آئی کے امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرانے میں دیگر تمام جماعتوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
8 فروری 2024 کے انتخابات کیلئے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں کیلئے کاغذات نامزدگی جمع کرانے والے پی ٹی آئی کے امیدواروں کی تعداد 2018کے انتخابات میں پی ٹی آئی کے ایسے امیدواروں کی تعداد سے زیادہ ہے۔