ہیڈ آف نیوز اسلام آباد منتظر مہدی
عدالت عظمیٰ نے پاکستان مسلم لیگ (ن)کے صدر و قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف ،میاںشہباز شریف کا نام” بلیک لسٹ” سے نکالنے اور طبی بنیادوں پر علاج معالجہ کروانے کے لئے ا نہیں بیرون ملک جانے کی اجازت دینے کے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر کی گئی۔
وفاقی حکومت کی اپیل ابتدائی سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے میاں شہباز شریف کو نوٹس جاری کردیا ہے جبکہ اور لاہور ہائی کورٹ سے مقدمے کا تمام ریکارڈ طلب کر تے کہاہے کہ بتایا جائے کہ ہائی کورٹ میں شہباز شریف کی پٹیشن کب دائر ہوئی اور کب سماعت کے لیے مقرر ہوئی تھی۔
جسٹس اعجا زالاحسن نے ریما رکس دیے ہیں کہ بادی النظر میں حکومت نے ہائی کورٹ کے حکم کی توہین کی ہے، جسٹس اعجازالاحسن کی سربراہی میں جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل دو رکنی بنچ نے منگل کے روز کیس کی سماعت کی تو اٹارنی جنرل نے اپیل گزار حکومت پاکستان کی جانب سے پیش ہوکر دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ ہائی کورٹ نے جلد بازی میں یک طرفہ طور پر آرڈر جاری کرکے میاں شہباز شریف کو بیرونی ملک جانے کی جازت دی ہے ۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ شہباز شریف کی پٹیشن پر ہائی کورٹ کی سات مئی کی مہر لگی ہے،جس پر اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا کہ مہر کے حساب سے تو درخواست دائر بھی اسی دن ہی ہوئی تھی جس دن آرڈر جاری کیا گیا ہے
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اتنی جلدی میں سارا کام کیسے ہو سکتا ہے؟ انتہائی ارجنٹ درخواست پر چیف جسٹس کی باقاعدہ تحریر ہوتی ہے،اٹارنی جنرل نے شہباز شریف کو بیرونی ملک جانے کی اجازت کا ہائی کورٹ کاحکم معطل کرنے کی استدعا کی تو جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ مسول الیہ نے ہائی کورٹ سے درخواست ہی واپس لے لی ہے۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے سوال اٹھایا کہ درخواست واپس ہونے پر وفاق کی اپیل کیسے سنی جا سکتی ہے؟ اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا کہ درخواست واپس لینے کے حکم میں بیرون ملک جانے کی اجازت دینے کا فیصلہ واپس نہیں لیا گیا ہے۔
انھوں نے کہا بیرون ملک جانے کی اجازت کا حکم برقرار ہے او میاںر شہباز شریف نے ہائی کورٹ میں توہین عدالت کی درخواست دائر کی ہے جو زیرالتوا ہے،انہوںنے کہا کہ توہین عدالت کی درخواست کے ذریعے بیرون ملک روانگی کے حکم پر عمل کرایا جا سکتاہے۔
دوران سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے حکومتی اداروں کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کیخلاف اقدام پر سوالات اٹھائے اور ریما رکس دیے کہ بادی النظر میں حکومت نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کی توہین کی ہے۔
اب دیکھنا ہوگا کہ ہائیکورٹ کے حکم کی توہین ہوئی ہے یا نہیں؟انہوںنے کہا شہباز شریف رکن پارلیمنٹ اور اپوزیشن لیڈر ہیں اور ہمیں تمام اراکین اسمبلی کا احترام ہے،انہوںنے استفسار کیا کہ کیا شہباز شریف کو کوئی میڈیکل ایمرجنسی تھی جو اتنی جلد ی کیس کی سماعت ہوئی ہے؟
جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ شہباز شریف کی طبی بنیادوں پر ضمانت مسترد ہوئی تھی، ایسا کوئی ریکارڈ نہیںہے کہ انہیں کوئی ایمرجنسی تھی،انہوںنے مزید کہا کہ ہائی کورٹ نے تو وفاق کا موقف بھی نہیں سنا اور یکطرفہ حکم دے کر اس پر عملدرآمد کے لئے بھی زور دیا گیاہے۔
انہوںنے کہا کہ شہباز شریف بطورقائد حزاب اختلاف قابل احترام ہیں لیکن انصاف قانون کے مطابق ملنا چاہیے،بعد ازاں عدالت نے وفاقی حکومت کی اپیل سماعت کے لئے منظور کر تے ہوئے میاںشہباز شریف کو نوٹس جاری کردیا اور ہائی کورٹ سے کیس کا ریکارڈ طلب کرلیا ۔کیس کی مزید سماعت 2جون کو ہوگی۔